کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 440
ہونا ہے۔ جن حدیثوں میں سب سے پہلے اسلام لانے اور سب سے پہلے ہجرت کرنے کا ذکر آیا ہے ان کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ ان دو خصلتوں یا صفتوں کا تعلق اس وقت سے تھا جب ان کا ایک اعتبار تھا، مگر آج لوگوں کا اسلام موروثی ہے اور ہجرت غیر اختیاری بھی ہے اور کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل بھی نہیں ہے جیسا کہ ’’فتح مکہ‘‘ سے پہلے تھی۔ اسی طرح قرآن کا سب سے زیادہ حافظ پہلے نمبر پر، سنت کا سب سے زیادہ عالم دوسرے نمبر پر اور عمر میں سب سے بڑا تیسرے نمبر پر امامت کا حق دار ہے۔ان اوصاف کے علاوہ کسی بھی صحیح حدیث میں اہلیتِ امامت کا کوئی اور وصف بیان نہیں ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے علاوہ امامت کی اہلیت یا استحقاق کے لیے کوئی اور وصف لازمی یا مستحب قرار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آواز بلند کرنا ہے جو ’’حبط عمل‘‘ کا موجب ہے۔ مذکورہ وضاحت کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کی ایک عبارت نقل کر رہا ہوں جس سے میرے مذکورہ بالا دعاوی کی سو فیصد تائید ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کتاب محمد بن عبداللہ بن احمد تمرتاشی غزی کی تصنیف ہے جن کا لقب ’’شمس الدین‘‘ تھا اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ اسی تنویر الابصار کی شرح ہے جس کے مصنف محمد بن علی حصنی حصکفی ہیں ۔ تنویر الابصار کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : ((و الأحق بالامامۃ الاعلم باحکام الصلاۃ، ثم الأحسن تلاوۃ، ثم الأورع، ثم الأسن، ثم الأحسن خلقا، ثم الأحسن وجہا، ثم الأشرف نسبا، ثم الأنظف ثوباً، فان استووا یقرع او الخیار الی القوم)) [1] ’’امامت کا سب سے زیادہ حق دار نماز کے احکام کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے، پھر سب سے اچھی تلاوت کرنے والا، پھر سب سے زیادہ پرہیز گار، پھر سب سے زیادہ عمر والا، پھر سب سے بہتر اخلاق والا، پھر سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والا، پھر سب سے اعلیٰ نسب والا، پھر سب سے زیادہ خوش پوش۔‘‘ اگر ان اوصاف میں سب برابر ہوں تو قرعہ اندازی کی جائے یا لوگوں کو اختیار دے دیا جائے کہ جس کو چاہیں چن لیں ۔‘‘ یہ تو تنویر الابصار کی عبارت تھی، اب اس کی شرح ’’الدر المختار‘‘ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : ((ثم أصبحہم ای اسمحہم وجہا، ثم اکثر حسبا، ثم الاحسن صوتا، ثم الاحسن زوجۃ، ثم الاکثر مالا، ثم الاکثر جاہا، ثم الاکبر راسا، ثم الاصغر عضوا، ثم المقیم علی المسافر، ثم الحر الاصلی علی العتیق، ثم المتیمم عن حدث علی المتیمم عن جنابۃ، فان اختلفوا اعتبر اکثرہم)) [2]
[1] بحوالہ سبیل الرسول، ص: ۱۲۷-۱۲۸۔ [2] ایضاً