کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 44
یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ آپ کوئی ایسی خبر دے سکتے تھے جو عقل کی بار گاہ میں محال ہو۔‘‘ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات، مثلاً پاؤں ، اور انگلیوں وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان سے متعلق مختصر بات یہ ہے کہ: ’’جس خبر کی تاویل ممکن نہیں وہ مردودہے اور جو صحیح حدیث قابل تاویل ہے وہ بعد از تاویل قبول کر لی جائے گی۔‘‘ [1] احیاء العلوم میں دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں : ((فأما من یأخذ معرفۃ ہذا الأمور من السمع فلا یستقرلہ فیہا قدم ولا یتعین لہ موقف۔)) [2] ’’رہا وہ جو ان امور کی معرفت بذریعہ سمع (حدیث) حاصل کرنا چاہتا ہے تو نہ تو وہ ثابت قدم ہو سکتا ہے اور نہ اس کا نقطہ نظر ہی متعین ہو سکتا ہے۔‘‘ ۳۔ ڈاکٹر رمضان بوطی کی بڑ: ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور کتاب وسنت سے ثابت عقائد کے بارے میں ان کے بعض نقطہ ہائے نظر کے نمونے بھی پیش کیے جا چکے ہیں ، موصوف اشعری وماتریدی متکلم، غالی صوفی اور اسلاف کے دشمن ہیں ۔ موحدین، محدثین اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والوں کے کے خلاف ان کی زبان وقلم سے سب وشتم کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا، وہ اہل حق کے خلاف اپنی زبان درازی کے ساتھ اپنے امام اور مرشد زاہد کوثری کی طرح بڑ مار نے اور دعوے کرنے میں بڑے ماہر ہیں ۔ وہ اپنے جیسے کج بحثی کرنے والوں کا ذکر ’’جمہور‘‘ کے لفظ سے کرتے ہیں تاکہ قارئین کو یہ غلط تاثر دے سکیں کہ یہی ’’جمہور علماء‘‘ کا عقیدہ ہے۔ موصوف سنت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر سلسلہ اسناد صحت کے عناصر کا حامل ہو اور خبر نقل کرنے والے صرف ایک ایک راوی سے عبارت ہوں تو عقل کے نزدیک ایسی خبر زیادہ سے زیادہ ظنی ہوگی،اور اگر ہر سلسلہ میں دو یا تین راوی ہوں ، تو ایسی خبر بھی ظنی ہی رہے گی، البتہ ظن قوی ہوگی اور یقین کے قریب ہو جائے گی۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ’’رہی خبر صحیح کی ظنی قسم، (خبر واحد) تو عقیدہ کے تعین کے مسئلہ میں اسلامی حکم کی روشنی میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ، اس لیے کہ اس سے صرف ظن کا فائدہ ہوتا ہے اور قرآن کریم نے عقیدہ کی بحث کے میدان میں ظن کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے۔ ‘‘[3] بوطی کا یہ دعویٰ رازی کے کلام سے ماخوذ ہے، معتزلہ کے دور سے آج تک منکرین حدیث یہی راگ الاپتے آ رہے
[1] المنخول، ص ۲۸۶ [2] ص: ۱۸۰، ج ۱ [3] کبری الیقینیات ص ۱۰۰۔ ۱۰۷۔