کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 438
’’اپنے ائمہ اپنے بہتر لوگوں کو بناؤ، اس لیے کہ وہ تمہارے اور اللہ عزوجل کے درمیان تمہارے قاصد ہوں گے۔‘‘ ۳۔ ((ان سرکم ان تقبل صلوتکم، فلیومکم علماؤ کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم)) ’’اگر تمہارے لیے یہ بات سرور بخش ہے کہ تمہاری نماز قبول کی جائے تو چاہیے کہ تمہاری امامت تمہارے علماء کریں ، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان قاصد ہوں گے۔‘‘ تو ان روایتوں میں سے کوئی بھی روایت صحیح وثابت نہیں ہے اور اپنے متن میں صحیح حدیثوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے سب منکر ہیں ۔[1] پہلی حدیث امام دارقطنی نے سنن میں (ص۱۹۷) اور ابن مندہ نے المعرفہ (ج۲ ص ۱۷۴) میں یحییٰ بن یعلی اسلمی کے طریق سے روایت کی ہے، عبداللہ بن موسی نے قاسم سامی سے، انہوں نے مرثد بن ابی مرثد غنوی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، امام دارقطنی نے لکھا ہے: اس کی سند ثابت نہیں ، عبداللہ بن موسی ضعیف ہے۔ امام ذہبی لکھتے ہیں ، عبداللہ بن موسیٰ تیمی روایت حدیث میں حجت نہیں ۔[2] یحییٰ بن معین کا قول ہے‘ سچا تھا، لیکن بے تحاشا غلطیاں کرتا تھا۔[3] رہا عبداللہ بن موسیٰ تیمی سے اس حدیث کا روایت کرنے والا یحییٰ بن لیلیٰ اسلمی جس کا لقب قطورانی بھی ہے، تو امام بخاری کا اس کے بارے میں قول ہے کہ اس کی حدیثوں میں اضطراب اور اختلاف ہے اور امام ابو حاتم نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔[4] دوسری حدیث بھی امام دارقطنی نے سنن میں (ص۱۹۷) اور بیہقی نے بھی سنن میں ( ص۹۰ ج۳) حسین بن نصر سے روایت کی ہے، ہم سے سلام بن سلیمان نے بیان کیا، کہا: ہم سے عمر بن عبدالرحمن بن یزید نے، محمد بن واسع سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہوئے، بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ امام بیہقی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف کہنے پر اکتفا کیا ہے، ضعف کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں ، تفصیلات یہ ہیں کہ: ۱۔ عمر بن عبدالرحمن بن یزید: اس کے بارے میں دارقطنی کا کہنا ہے: میرے نزدیک یہ عمر بن یزید ہے جو مدائن کاقاضی تھا، امام عبداللہ بن عدی نے الکامل میں اس کو ’’منکر الحدیث‘‘ لکھا ہے۔[5]
[1] ملاحظہ ہو الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص ۳۲، ۶۹ [2] میزان الاعتدال ترجمہ: ۴۶۳۵ [3] المجروحین، ترجمہ ۸۸۹۔ [4] المیزان: ۹۶۶۵۔ [5] ج۶ ص ۵۵ ترجمہ: ۲۳۲