کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 437
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جس نے کسی متقی عالم کے پیچھے نماز ادا کی تو گویا اس نے کسی نبی کے پیچھے نماز ادا کی۔‘‘ [1] عرض ہے کہ علامہ مرغینانی نے، جن کو کوثری نے حافظ اور محدث لکھا ہے، جس عبارت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرمایا ہے، وہ حدیث نہیں جھوٹ ہے، جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے، حافظ زیلعی، حنفی نے نصب الرایہ میں اس کو ’’غریب‘‘ بتایا ہے۔[2] غریب زیلعی کی خاص اصطلاح ہے جس سے ان کی مراد ایسی روایت ہوتی ہے جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہ ہو۔ حافظ محمد عبدالرحمن سخاوی نے ’’المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرۃ علی الالسنۃ‘‘ میں ہدایہ ہی کے حوالہ سے یہ عبارت نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’ان الفاظ میں کسی روایت سے واقف نہیں ہوں ۔‘‘ [3] ملا علی قاری کی غلط بیانی: علامہ نور الدین علی بن محمد بن سلطان، جو ملا علی قاری کے نام سے مشہور ہیں ، حدیث کے عالم تھے، اپنی مشہور کتاب ’’الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ‘‘ میں انہوں نے بڑی تعداد میں ضعیف اور موضوع روایتوں کا ذکر کیا ہے، مگر انہوں نے بے بنیاد اور جھوٹی روایتوں پر ایک محدث یا عالم حدیث کی طرح حکم لگانے کے بجائے ایک صوفی اور مقلد عالم کی طرح حکم لگایا ہے، یعنی وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف، موضوع یا بے اصل ہے مگر اسی کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کر جاتے ہیں کہ اپنے معنی اور مفہوم میں صحیح ہے۔ یہ طرز بیان علمی دیانت کے خلاف ہے، جو چیز یا جو عبارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت نہ رکھتی ہو، وہ باطل اور مردود ہے، ایسی عبارت معنا صحیح کس طرح ہو سکتی ہے، چنانچہ اس زیر بحث روایت کا بھی انہوں نے ہدایہ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ غیر معروف ہے جیسا کہ ہدایہ کی حدیثوں کی تخریج کرنے والے نے کہا ہے، پھر لکھا ہے کہ: لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی صحیح ہیں ، کیونکہ دیلمی نے جابر رضی اللہ عنہ کی جو مرفوع حدیث روایت کی ہے اس کے الفاظ ہیں : ’’قدموا خیارکم تزکوا اعمالکم‘‘ اپنے بہتر لوگوں کو امامت کے لیے آگے بڑھاؤ اس طرح اپنے اعمال کو پاک کرو۔‘‘ [4] یہ روایت ان الفاظ میں بھی مروی ہے: ۱۔ ((ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیومکم خیارکم)) ’’اگر تمہارے لیے یہ بات مسرت بخش ہے کہ تمہاری نماز قبول کی جائے تو چاہیے کہ تمہارے بہتر آدمی تمہاری امامت کریں ۔‘‘ ۲۔ ((اجعلوا ائمتکم خیارکم، فانھم وفد کم فیما بینکم وبین اللہ عزوجل))
[1] ج۲ ص ۲۹ [2] ج۲ ص ۲۸ [3] ص ۳۶ نمبر ۷۶۴ [4] ص ۲۳۵ نمبر ۲۶۴