کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 436
تبصرہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ، جس کی صحت اور ثبوت کے معترف مرغینانی خود ہیں ، نماز میں امات کا سب سے زیادہ حقدار قرآن پاک کے سب سے زیادہ حافظ کو قرار دیا گیا ہے اور امام ابوحنیفہ کے بعد احناف کے دوسرے سب سے بڑے امام ابویوسف رحمہما اللہ نے بھی حدیث کے بموجب قرآن کے سب سے زیادہ حافظ کو امامت نماز کا سب سے زیادہ اہل قرار دیا ہے، مگر ان سے کوئی چار صدی بعد پیدا ہونے والے امام اور فقیہہ نے حدیث اور اس حدیث پر مبنی حکم کو بدل دیا، اور اہلیت امامت کا جو دوسرا درجہ تھا۔ اس کو پہلا درجہ قرار دے دیا؟ پھر ستم یہ کیا کہ اپنے اس فعل کی دلیل میں وہی صحیح حدیث پیش کر دی جس میں امامت کا پہلا درجہ کتاب اللہ کا حفظ بیان کیا گیا ہے اور حدیث کو نقل کرتے ہوئے اس کے ’’متن‘‘ کو بھی بدل ڈالا، حدیث کے الفاظ ہیں : ((یوم القوم اقرؤھم لکتاب اللہ، فان کانوا فی القراء ۃ سواء، فأعلمہم بالسنۃ)) اور ہدایہ کے الفاظ ہیں : ((یوم القوم اقرؤھم لکتاب اللہ تعالی، فان کانوا سواء فاعلھم بالسنۃ))؟!!! اگر علامہ مرغنیانی کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن اس کے حکام کے ساتھ سیکھتے تھے، اس لیے ’’اقرأ لکتاب اللہ اعلم بالسنۃ‘‘ بھی ہوتا تھا تو دوسرے درجہ پر اَعلمھم بالسنۃ فرمانے کی کیا ضرورت تھی، کیا قرآنی احکام کا علم سنت کا علم نہیں ہے؟ پھر جتنی حدیثوں میں امامت کا سب سے زیادہ حقدار قرآن کے سب سے زیادہ حافظ کو قرار دیا گیا ہے اور ان حدیثوں پر عمل کرنے والے صحابہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں ، جیسے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی امامت کا واقعہ اور سالم رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو کیا یہ حدیثیں اور یہ واقعات مرغنیانی کے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ اس زمانے میں قرآن کا حافظ سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، کیا یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ عمر بن خطاب اور ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہما سے زیادہ سنت کا علم رکھتے تھے، جن کی وہ نماز میں دوسرے مہاجرین سمیت امامت کرتے تھے؟[1] باطل روایت سے استدلال: علامہ مرغینانی نماز میں امامت کے استحقاق کے درجات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : (( فان تساووا فأورعھم، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من صلی خلف عالم تقی فکانما صلی خلف بنی)) ’’اگر لوگ سنت کے علم میں برابر ہوں تو ان میں سب سے زیاہ پرہیزگار ان کی امامت کرے، کیونکہ
[1] بخاری: ۶۹۲۔ ابوداود: ۵۸۵