کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 435
ترین حدیثوں کا انکار کیا ہے، جس سے ان کے دلوں میں حدیث رسول کے عدم احترام کا اشارہ ملتا ہے، اسی طرح انہوں نے صحیح احادیث کی عبارتوں میں تبدیلی اور ان سے حاصل ہونے والے احکام میں اضافے کر کے اور خود اپنے ذوق اور پسند سے بہت سارے احکام گھڑ کر ایسے ناقابل انکار دلائل فراہم کر دیئے ہیں کہ شریعت سازی کا حق ان کو بھی حاصل تھا، اس طرح اپنے پیروؤں کے دلوں سے حدیث کی ہیبت کو نکال دیا ہے۔ ہدایہ میں امامت نماز کے لازمی اوصاف: علامہ برہان الدین علی بن ابوبکر مرغینانی کی کتاب ’’الہدایہ‘‘ فقہ حنفی کی نہایت اہم اور بنیادی کتاب ہے ان کے نام سے پہلے ’’امام‘‘ لکھا جاتا ہے اور محمد زاہد کوثری نے ان کو محدثین میں شمار کیا ہے۔ [1] مرغینانی اپنی کتاب کی کتاب الصلاۃ، باب الامامہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ((وآولی الناس بالامامۃ اعلمھم بالسنۃ، وعن ابی یوسف رحمة الله عليه اقرؤھم لأن القراء ۃ لا بدمنھا، والحاجۃ الی العلم اذا نابت نائبۃ، ونحن نقول: القراء ۃ مفتقر الیھا لرکن واحد والعلم لسائر الارکان، فان تساووا فاقرؤھم، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: یؤم القوم أقرؤھم لکتاب اللہ تعالی، فان کانوا سواء فأعلمھم بالسنۃ، واقرؤھم کان اعلمھم، لانھم کانوا یتلقونہ باحکامہ فَقُدم فی الحدیث، ولا کذلک فی زماننا، فقدمنا الاعلم)) لوگوں میں امامت کا سب سے زیادہ اہل وہ ہے جو ان میں سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو، اور ابویوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ قرآن کا سب سے زیادہ حافظ امامت کا سب سے زیادہ حق دار ہے اس لیے کہ حفظ قرآن لازمی ہے جبکہ علم کی ضرورت کوئی افتاد پڑنے پر ہوتی ہے۔ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ حفظ کی ضرورت صرف ایک رکن کی وجہ سے ہے، جبکہ علم تمام ارکان کی وجہ سے ضروری ہے اور اگر لوگ سنت کے علم میں برابر ہوں تو ان میں قرآن کا سب سے زیادہ حافظ امامت کا مستحق ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لوگوں کی امامت وہ کرے جو ان میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کا سب سے زیادہ حافظ ہو، اور اگر اس میں سب برابر ہوں تو سنت کا زیادہ علم رکھنے والا، اور صحابہ میں قرآن کا سب سے زیادہ حافظ، ان میں اس کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوتا تھا، اس لیے کہ وہ قرآن کو اس کے احکام کے ساتھ سیکھتے تھے، لہٰذا حدیث میں حفظ کو مقدم رکھا گیا ہے، اور ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہے اس لیے ہم نے زیادہ علم رکھنے والے کو پہلے درجہ پر رکھا ہے۔‘‘ [2]
[1] مقدمہ نصب الرایہ: ص ۳۴ [2] ج۲ ص ۳۷