کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 434
وقعۃ اہل الفتح بادر کل قوم بإسلامھم، وبدر ابی قومی باسلامھم، فلما قدم قاک: جئتکم واللہ من عند النبی صلي اللّٰه عليه وسلم حقا، فقال: صلوا صلاۃ کذا فی حین کذا وصلوا صلاۃ کذا فی حین کذا فاذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن احدکم، ولیؤمکم أکثرکم قرآنا، فنظروا فلم یکن احد اکثر قرآنا منی، لما کنت اتلقی من الرکبان، فقد مونی بین ایدیھم وانا ابن ست او سبع سنین، وکانت علی بردۃ اذا سجدت تقلصلت عنی، فقالت امراۃ من الحی: الاتغطون عنا است قارئکم، فاشتروا، فقطعوا لی قمیصا، فما فرحت بشیٔ فوحی بذلک القمیص )) ’’ہم لوگوں کی گزر گاہ پر واقع ایک چشمہ کے پاس رہائش پذیر تھے اور قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھا کرتے تھے کہ: لوگوں کا کیا حال ہے، لوگوں کا کیا حال ہے؟ اس شخص کا کیا ماجرا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں وہ کہتے: اس کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنایا ہے، اس کو وحی کی ہے، یا اللہ نے اس کی طرف یہ وحی کی ہے، میں یہ باتیں اپنے لوح قلب پر محفوظ کر لیتا اور وہ میرے سینے میں گویا چمٹ جاتیں ۔ عرب قبول اسلام کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس کو اور اس کی قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر وہ ان پر غالب آگیا تو وہ سچا نبی ہے، چنانچہ جب فتح والوں کا واقعہ ظہور پذیر ہوگیا تو ہر قوم اسلام لانے میں پہل کرنے لگی اور میرے والد قبول اسلام میں میری قوم کے لوگوں سے سبقت لے گئے اور جب وہ آئے تو کہا: اللہ کی قسم میں نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آرہا ہوں ، انہوں نے فرمایا ہے کہ: تم لوگ اس طرح کی نماز اس طرح کے وقت میں پڑھو اور اس طرح کی نماز اس طرح کے وقت میں پڑھو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہارا ایک آدمی اذان دے اور تم میں جو زیادہ قرآن والا ہے، وہ تمہاری امامت کرے، لوگوں نے نظر دوڑ الیٰ تو مجھ سے زیادہ قرآن والا کوئی نہیں تھا، کیونکہ میں قافلے والوں سے قرآن سیکھا کرتا تھا، اس لیے لوگوں نے مجھے آگے بڑھا دیا، جبکہ میں چھ یا سات برس کا بچہ تھا، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جو میرے سجدہ کرنے کی حالت میں سکڑ جاتی اس پر محلے کی ایک عورت نے کہا: کیا تم لوگ ہم سے اپنے قاری کا سرین نہیں چھپاؤ گے؟ تو لوگوں نے کپڑا خرید کر میرے لیے قمیض بنا دی۔ مجھے اس قمیص سے جو خوشی ہوئی ویسی خوشی کوئی اور چیز پانے سے نہیں ہوئی تھی۔‘‘ فرمان نبوی کی صریح مخالفت: میں نے اوپر یہ دعویٰ کیا ہے کہ فقہائے احناف نے اپنی کتابوں میں جہاں ضعیف اور منکر روایتوں سے بکثرت استدلال کیا ہے جس سے حدیث رسول سے ان کی عدم واقفیت کا پتہ چلتا ہے وہیں اپنے ائمہ کے مسلک کی تائید میں صحیح