کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 432
پہلی حدیث: ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((یوم القوم اقرؤھم لکتاب اللّٰہ، فان کانوا فی القراء ۃ سواء، فاعلمھم بالسنۃ فان کانوانی السنۃ سواء فاقدمھم ہجرۃ، فان کانوافی الھجرۃ سواء فاقدمھم سلما ولا یومن الرجل الرجل فی سلطانہ، ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ الا باذنہ)) [1] ’’جماعت کی امامت وہ کرے جو ان میں اللہ کی کتاب کا سب سے زیادہ حافظ ہو، اگر حفظ میں سب برابر ہوں ، تو وہ امامت کرے جو ان میں سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو، اور اگر سنت کے علم میں سب برابر ہوں ، تو امامت وہ کرے جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو، اور اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو وہ امامت کرے جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو، اور کوئی کسی کی ریاست میں اس کی امامت نہ کرے اور نہ کوئی کسی کے گھر میں اس کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔‘‘ حدیث کی تشر یح: ۱۔ حدیث میں قراء ت کتاب اللہ سے مراد کتاب اللہ کا حفظ ہے، رہا اصطلاحی لفظ ’’حفظ قرآن‘‘ تو احادیث میں یہ استعمال نہیں ہوا ہے اس طرح الاقرأ لکتاب اللہ کی تعبیر اس شخص کے لیے استعمال کی گئی ہے جس کو قرآن پاک کے زیادہ اجزاء زبانی یاد ہوں ، صحیح بخاری میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اَقروھم لکتاب اللہ کی جگہ ’’اکثر کم قرانا‘‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے: تم میں سب سے زیادہ قرآن والا، یعنی جس کو سب سے زیادہ قرآن کے اجزاء یا سورتیں یاد ہوں ، ویسے اس زمانے میں پورا قرآن نازل بھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اصطلاحی معنی میں ’’حافظ قرآن‘‘ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف ۲۱ دن پہلے ’’نزول قرآن‘‘ مکمل ہوا ہے۔ ۲۔ اس حدیث میں ہجرت میں اقدمیت یا سبقت میں جماعت کے تمام افراد کے برابر ہونے کی صورت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کو امامت کا حقدار قرار دیا گیا ہے، جبکہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’عمر میں بڑے‘‘ کو حقدار قرار دیا گیا ہے، تو دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ دین میں ’’سبقت الی الاسلام‘‘ کی جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، قرآن کے مطابق ’’السابقون الاولون‘‘ کو خاص فضیلت حاصل ہے۔ (التوبۃ: ۱۰۰) لیکن یہ فضیلت عصر رسالت کے لیے خاص تھی جبکہ عمر میں بڑائی کا ہر زمانے میں اعتبار ہے اس تناظر میں عصر رسالت میں عمر میں بڑے کو امامت کا حق اس وقت حاصل تھا جب جماعت کے لوگ حفظ قرآن،
[1] مسلم: ۶۷۳۔ ابو داؤد: ۵۸۲