کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 431
مختصراً یہ ہیں : ۱۔ صحیح احادیث سے صراحتاً اور قرآن سے اشارۃً یہ ثابت ہے کہ عورت کے نکاح کی صحت اس کے ولی کے اذن پر موقوف ہے، لہٰذا کوئی دوسری صحیح حدیث اس شرعی حکم کے خلاف نہیں ہو سکتی، زبان نبوت سے دو متضاد باتیں نہیں نکل سکتیں ۔ ۲۔ اسلام نے عورت کے نکاح کے انعقاد کے لیے جو شرط عائد کی ہے وہ عقد نکاح کے نفاذ تک محدود ہے اور عورت کا یہ حق کہ وہ اپنا شریک حیات خود پسند کر سکتی ہے پوری طرح محفوظ ہے۔ ۳۔ اسلام نے عورت کو شوہر کے پسند کا حق دے کر اس کو اولیاء الامور کے ہر ظلم سے محفوظ کر دیا ہے جس ظلم کے مطاہر عرب معاشرے میں بہت تھے اور آج کے نام نہاد اسلامی معاشرے میں اور بہت زیادہ ہیں ۔ ۴۔ اسلام نے عورت کے نکاح کے لیے مرد کی ولایت کی شرط لگا کر عورت کو جذبات کی رو میں بہنے اور معاشرے کے مفسدین اور مجرمین کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے مکمل طورپر محفوظ کر دیا ہے۔ ۵۔ عورت کے لیے مرد کی ولایت خود اس حدیث کے پہلے فقرے: ’’الایم احق بنفسھا من ولیھا‘‘ سے ثابت ہے۔ مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں صحیح مسلم کی حدیث سے عورت کے لیے مرد کی ولایت کے غیر مشروط ہونے پر استدلال بے محل بھی ہے اور غلط بھی۔ صحیح احادیث میں من مانی تبدیلی اور اضافہ: فقہائے احناف کی کتابوں میں ضعیف اور منکر روایتوں سے استدلال اور صحیح ترین حدیثوں کے انکار یا عدم ذکر کی مثالوں کی بھر مار ہے، جس پر ’’الہدایہ‘‘ دلیل ہے اس کے علاوہ صحیح ترین حدیثوں کے متن میں تبدیلی، سلسلہ بیان میں تبدیلی اور احادیث میں بیان کردہ احکام میں اضافے کر لینا بھی عام سی بات ہے۔ نماز میں امامت کا حق دار کون؟ اسلام میں نماز عملی ارکان کے سرفہرست ہے اس تناظر میں نماز میں امامت کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے یہ امامت دراصل ’’امامت کبریٰ‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے، اور نماز میں سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت یا آیات کی تلاوت بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے، فاتحہ کی تلاوت تو رکن ہے، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوصاف کو بیان کر دیا ہے جن سے نماز کے امام کو موصوف ہونا چاہیے اور ان کی ترتیب بھی بیان کر دی ہے، جس میں قراء ت قرآن یعنی حفظ قرآن سرفہرست ہے، ذیل میں چند صحیح حدیثیں نقل کی جا رہی ہیں ، جن سے ظاہر اور مرتب ہونے والے احکام کو بدل بھی دیا گیا ہے اور ان میں اضافے بھی کر دیئے گئے ہیں ۔