کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 43
سب منکرین میں شمار ہوتے ہیں اور حدیث کا منکر قرآن کا منکر ہے جس کا حکم معلوم ہے۔ ۱۔ رازی کا نقطہ نظر: تفسیر کبیر، اساس التقدیس اور بہت سی کتابوں کے مصنف فخر الدین رازی کو امام رازی کہا جاتا ہے، مگر ان کی کتابوں میں کفر والحاد زیادہ اور اسلام بہت کم ہے موصوف اپنی کتاب، ’’اساس التقدیس‘‘ میں اخبار آحاد کے بارے میں عمومی بات کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی معرفت کے باب میں خبر واحد کو دلیل بنانا متعدد وجوہ سے ناجائز ہے۔ ۱۔ اخبار آحاد ظنی ہیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت میں ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔ ۲۔ میں نے ان کو اس وجہ سے ظنی کہا ہے کہ اس بات پر ہمارا اجماع ہے کہ حدیث کے راوی معصوم نہیں تھے۔ ۳۔ جب وہ غیر معصوم تھے، تو ان سے غلطی کا صدور ممکن، اس طرح ان کی صداقت معلوم ویقینی ہونے کے بجائے ظنی ہو گئی، لہٰذا خبر واحد ظنی قرار پائی اور یہ فرض قرار پایا کہ اس کو دلیل نہ بنایا جائے… [1] خبر واحد کے بارے میں جوینی کا بھی یہی نقطہ نظر تھا جن کا لقب امام الحرمین تھا، برعکس نام دہند زنگی را کافور؛ ان دونون کا شمار اشعری متکلمین کے ائمہ میں ہوتا ہے۔ ۲۔ غزالی کا نظریہ حدیث: ابو حامد غزالی کا نام محتاج تعارف نہیں ۔ وہ اشعری متکلم اور فقیہہ تھے، ان کے نام کے ساتھ امام اور حجۃ الاسلام لکھا جاتا ہے، انہوں نے پہلے فلسفہ اور منطق میں بڑا نام پیدا کیا، پھر ان کے اندر انقلاب آیا اور راہ سلوک اور تصوف اختیار کرلی، باطنیت سے بھی ان کا تعلق رہا، علم حدیث سے وہ تہی دامن تھے، اپنی مشہور کتاب ’’إحیاء العلوم‘‘ کو انہوں نے ضعیف اور جھوٹی روایتوں اور من گھڑت اولیاء اللہ کے کشف وکرامات کے خود ساختہ اور عقل وشرع سے متصادم واقعات سے بھر دیا ہے ان کی حدیث دانی کو معلوم کرنے کے لیے حافظ زین الدین ابو افضل عراقی کی کتاب: ’’المغنی عن حمل الأسفار فی الأسفار فی تخریج مافی الإحیاء من الأخبار‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہے۔ بایں ہمہ حدیث کا نام ان کے طبع نازک پر بڑا گراں گزرتا تھا۔ حدیث کے بارے میں ذرا ان کا نقطہ نظر ملاحظہ ہو: ’’ہر وہ خبر جس سے باری تعالیٰ کی صفت کا اشارہ ملتا ہو، اگر اس کے ظاہری الفاظ عقل کی میزان میں محال ہوں ، تو غور وتدبر کر کے دیکھا جائے گا کہ آیا ان کی تاویل کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر قابل تاویل ہے تو اس کی تاویل کر کے اس کو مان لیا جائے گا اور اگر اس کی تاویل ممکن نہیں تو پھر راوی کی کذب بیانی پر محمول کر کے اس کو ردّ کر دیا جائے گا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب عقول کے رہنما تھے آپ کے بارے میں
[1] اساس التقدیس ص ۱۶۸۔