کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 429
چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہم سے وکیع اور عبدالرحمن نے اسرائیل سے، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے ابوبردہ سے اور انہوں نے اپنے والد۔ ابو موسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہوئے، بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لا نکاح الا بولی)) [1]
’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘
اوپر جو سند بیان کی گئی ہے اس کی تمام کڑیاں متصل اور ملی ہوئی ہیں ، اسرائیل بن یونس ثقہ راوی ہیں اور اپنے دادا ابو اسحاق سبیعی ہمدانی سے ان کا سماع ثابت ہے کیونکہ وہ ان سے چمٹے رہتے تھے، اور ان کے ساتھ لگے رہتے تھے۔
امام دارمی کی سند میں ، اسی طرح ترمذی، ابن حبان، طبرانی، بیہقی، تاریخ بغداد شرح معانی الآثار، الکفایہ وعیرہ کی سندوں میں شریک بن عبداللہ نخعی نے ابواسحاق سے اس حدیث کے سماع میں اسرائیل سے اتفاق کیا ہے۔
شریک بن عبداللہ کے علاوہ قیس بن ربیع، زہیر بن معاویہ اور عبدالحمید ہلالی نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے، یہ متابع راوی اگرچہ انفرادی طور پر ضعیف تھے، مگر ضعف کے اس درجے پر نہیں تھے کہ ایک ثقہ راوی کے متابع اور مؤید نہ بن سکیں ۔
دوسری حدیث:
امام احمد فرماتے ہیں :
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابن جریج۔ عبدالملک بن عبدالعزیز، نے بیان کیا، کہا: مجھے سلیمان بن موسیٰ نے، زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((اذا نکحت المرأۃ بغیر امر مولاھا، فنکاحھا باطل، فنکاحُھا باطل، فنکاحھا باطل، فان اصابتھا، فلھا مھرھا بما اصاب منھا، فان اشتجروا، فالسلطان ولی من لاولی لہ)) [2]
’’اگر عورت نے اپنے ولی کے حکم کے بغیر عقد نکاح کر لیا تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ مباشرت کر لی تو اس مباشرت کے باعث عورت کے لیے مہر لازم ہے، اور اگر لوگوں میں جھگڑا ہو جائے تو اس کا ولی حاکم ہے جس کا کوئی ولی نہیں ہے۔‘‘
[1] مسند امام احمد: ۱۹۵۱۸، ۱۹۷۱۰، ۱۹۷۴۷۔ ترمذی: ۱۱۰۱۔ سنن دارمی: ۲۱۸۳۔ صحیح ابن حبان: ۴۰۷۷، ۴۰۹۰۔ المعجم الاوسط للطبرانی: ۶۸۰۵
[2] مسند: ۲۴۲۰۵، ۲۵۳۲۶۔ ابوداود: ۲۰۸۳، ترمذی: ۱۱۰۲۔ ابن ماجہ: ۱۸۷۹۔ مستدرک حاکم: ۲۷۵۷۔ شرح لسنۃ: ۲۲۶۲