کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 428
جصاص اور ان کے ہم خیال دوسرے فقہاء کے اس دعویٰ کا جواب یہ ہے کہ اگر فعل ینکحن اس امر پر دلیل ہے کہ عورت اپنے نکاح میں ولی کی اجازت کی پابند نہیں یعنی اس فعل سے عورت کے لیے مرد کی ولایت کے غیر ضروری ہونے پر دلالت ہوتی ہے تو اس سے سابقہ فعل: ’’فلا تعضلوہن‘‘ ’’تو ان کو مت روکو‘‘ سے ولایت کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی آیت میں آگے پیچھے اور متصلاً دو ایسے فعل آئے ہیں جن میں سے پہلے فعل سے عورت کے لیے مرد کے ولی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، جبکہ دوسرے فعل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت نہ اس امر میں ’’صریح الدلالۃ‘‘ رہی کہ عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی اور نہ اس امر میں کہ عورت اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کر سکتی ہے۔ جصاص جیسے مجادلانہ ذہن رکھنے والے پر آیت کے یہ دونوں پہلو مخفی نہیں رہے ہوں گے اور ان کو یہ بھی معلوم رہا ہو گا کہ ایسے موقع پر کسی ایسی آیت کی تلاش کی جاتی ہے جس میں وہی مسئلہ دو ٹوک طریقے سے بیان کر دیا گیا ہو اور ایسی آیت لازماً ہو گی۔ تو عرض ہے کہ ایسی آیت اسی سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے یعنی آیت نمبر ۲۲۱، لیکن چونکہ اس آیت سے ’’جصاص‘‘ کی کور دبتی تھی اس لیے اس کی تفسیر کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ میری مراد جس آیت سے ہے اس کے الفاظ ہیں : ﴿وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۲۱) ’’اور مشرکوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو تاآنکہ وہ ایمان لے آئیں ۔‘‘ یہاں یہ توضیح تحصیل حاصل ہے کہ ’’لا تنکحوا‘‘ میں مخاطب ’’اولیاء الامور‘‘ ہیں اور اگر قرآن کے مطابق عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو جس طرح آیت کے آغاز میں مردوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ’’ولا تنکحوا المشرکات‘‘ ’’اور مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو۔‘‘ اسی طرح عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہوتا: ’’ولا تنکحن المشرکین‘‘ ’’اور مشرک مردوں سے نکاح مت کرو۔‘‘ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا‘‘ ’’عورت کے نکاح کے لیے مرد کی ولایت پر نص صریح ہے۔ پھر اسلامی احکام کے بیان میں حدیث کا بھی تو کوئی کردار ہے، آخر اپنی کتاب میں اتنی کثرت سے ضعیف اور منکر روایتوں اور علماء کے اقوال نقل کرنے والے پر یہ بھی تو فرض تھا کہ وہ شرعی احکام بیان کرتے ہوئے صحیح احادیث کا بھی ذکر کرتا جس طرح دوسرے حق پسند مفسرین، بطور مثال قرطبی کرتے ہیـں ، حتیٰ کہ وہ اپنے امام ’’مالک‘‘ کے مسلک اور رائے کے خلاف صحیح احادیث نقل کر کے اپنی حق پسندی کا ثبوت دیتے ہیں ، اس لیے کہ وہ اپنے امام کو اپنے رسول کا متبع مانتے تھے، ہم رتبہ اور ہم مقام نہیں جیسا کہ فقہائے احناف کا شیوہ ہے۔