کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 427
و مرتبہ قرآن و حدیث کو حاصل تھا۔ کہنے کو تو اب بھی یہی کہا جاتا تھا کہ کتاب و سنت ہی شرعی ماخذ ہیں ، لیکن فقہاء کا طرزِعمل اس کے خلاف تھا اور فقہی مسلک سے ٹکرانے والی قرآنی آیات کی مطابقِ مسلک تاویل کا رجحان عام ہونے لگا تھا اور مخالف مذہب احادیث کا انکار ایک فیشن بن گیا تھا۔ چنانچہ ایک مشہور حنفی عالم عبداللہ کرخی متوفی ۳۴۰ھ کا قول ہے: ((کل آیۃ او حدیث یخالف ما علیہ اصحابنا فہو مؤول أو منسوخ)) [1] ’’ہر وہ آیت یا حدیث جو ہمارے اصحاب -احناف- کے مسلک کے خلاف ہے وہ یا تو قابل تاویل ہے یا منسوخ ہے۔‘‘ ابوبکر احمد بن علی جصاص کی احکام القرآن: مسلک حنفی سے تعلق رکھنے والے مفسرین میں جصاص ایک بہت بڑا نام ہیں ، ان کے اسم گرامی سے پہلے امام اور حجۃ الاسلام کے القاب لکھے جاتے ہیں ۔ معتزلی ہونے کے باعث ان کو امام اور حجۃ الاسلام قرار دینا تو روا نہیں ہے، البتہ ان کو مسلک حنفی کا بہت بڑا مدافع کہا جا سکتا ہے۔ جصاص کی زبان و قلم سے غیر احناف کے خلاف شعلے نکلتے تھے، خصوصیت کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کی تنقید اور مذمت میں جصاص کے قلم نے جو زہر افشانیاں کی ہیں ان کا ذکر بھی ایک شریف آدمی نہیں کر سکتا۔ مثال کے لیے دیکھئے: [2] آیات احکام کی تفسیر کرتے وقت جصاص کے پیش نظر ان سے مسلکِ حنفی کی صحت پر استدلال رہتا ہے۔ قرآن کو مسلک کا تابع بنانے کی مثال: امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی ولی اور اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے۔ ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۲ سے اس مسلک کی صحت پر استدلال کیا ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں : ﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرۃ: ۲۳۲) ’’اور جب تم بیویوں کو طلاق دو اور وہ عدت کی انتہاء کو پہنچ جائیں تو ان کو ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو اگر وہ آپس میں بھلے طریقے سے راضی ہوں ۔‘‘ جصاص کا دعویٰ یہ ہے کہ آیت میں فعل ’’ینکحن‘‘ آیا ہے جس میں نکاح کرنے کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے۔
[1] تاریخ التشریع الاسلامی للسبکی و السایس و الربری ص ۲۸۱ بحوالہ التفسیر و المفسرون: ص ۴۷۰، ج ۲۔ [2] احکام القرآن: ص ۱۴۷، ۴۵۱، ج ۲