کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 426
((یُسِرُّ حَسْوا فی ارتغاء))
’’وہ جھاگ کی آڑ میں اصل مشروب پی جاتا ہے۔‘‘
یہ مثل ایسے شخص کے بارے میں بولا جاتا ہے جو ظاہر کچھ کرتا ہو اور عمل کچھ۔
کوثری نے اپنے چہرے سے اس وقت نقاب پوری طرح الٹ دیا ہے جب ان ائمہ حدیث و سنت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیا جن کو مامون اور آل مامون نے ظلم و تشدد اور آزمائشوں کا نشانہ بنایا تھا اس مسئلہ میں اپنی صرف ایک سطری عبارت میں کوثری نے حق اور اہل حق سے اپنی نفرتوں کو سمیٹ دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا ماخذ عقیدہ جہمیہ کا فلسفہ ہے۔ امام احمد اور ان کے ہم مسلکوں پر روا رکھنے والے جن مظالم اور آزمائشوں نے بہت سے غیر مسلموں ، حتی کہ اس آزمائش کی آگ بھڑکانے والے معتزلہ کی ایک بڑی تعداد کو غم ’’زدہ‘‘ بنا دیا تھا ان کا ذکر بھی کوثری نے تنقیدی لب و لہجہ میں کیا ہے۔ صفحہ ۵ پر رقم طراز ہے:
’’محدثین کے بعض شیوخ کی جانب سے اللہ سبحانہ اور اس کی صفات کے بارے میں ایسی لغزشیں اور فروگزاشتیں ظاہر ہونے لگیں جو فلسفی شریعت اور جہمی عقل کے نزدیک ناقابل قبول ہیں ۔‘‘[1]
اگر کوثری نے ائمہ سنت پر عقلی اعتراضات کیے ہوتے اور درمیان میں دین کا ذکر نہ کرتا تو معاملہ کسی حد تک قابل برداشت ہوتا، مگر اس نے دینی نقطۂ نظر سے ان پر طعن کر کے اور ان کو عقائد اسلام سے ناواقف کہہ کر اور ان پر گمراہی، انحراف اور بدعت کا الزام لگا کر اپنے خبث باطن کا اظہار کر دیا اس طرح ان کا مقام و مرتبہ گھٹانے کے بجائے اپنے آپ کو رسوا کر دیا۔
کوثری نے محدثین اور اہل سنت و جماعت کو گمراہ، مبتدع، جاہل اور منحرف قرار دے کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، پھر اس نے متکلمین اور فلاسفہ کی ان تاویلات کی تائید کر کے جو انہوں نے آیات صفات کی کی ہیں ، یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ متکلمین، فلاسفہ اور ان کے ہم مشربوں سے تعلق رکھتا ہے۔
فقہاء کی نگاہوں میں قرآن و حدیث کا مقام و مرتبہ:
متقدمین احناف صرف کتاب و سنت کو شرعی ماخذ مانتے تھے اولاً تو وہ کسی مذہب اور مسلک کے بانی اور داعی نہ تھے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عزت و احترام کے باوجود ان کے نرے مقلد نہ تھے، ثانیاً اپنی کسی رائے، خیال اور رجحان کی تائید کے لیے قرآنی آیات کی من مانی تاویلات اور صحیح احادیث کے دانستہ انکار سے ان کا دامن پاک تھا، اور وہ ہر حال میں قرآن و حدیث ہی کو ماخذ شرع مانتے تھے اور عملاً اس کا مظاہرہ کرتے تھے۔
لیکن بعد میں یہ صورت حال باقی نہیں رہی اور قرآن و حدیث کی وہ ہیبت بھی دلوں میں قائم نہیں رہی جو تیسری صدی ہجری کے اختتام تک قائم تھی، بلکہ اب مسلک اور مسلک کی ترجمان کتابوں نے وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیا جو مقام
[1] التنکیل: ص ۳۲۵، ج ۲۔