کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 425
غیر اسلامی تھے وہ اللہ تعالیٰ کے حادث ہونے کا قائل تھا وہ اللہ کے عرش پر موجود ہونے کا منکر اور اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا قائل تھا۔ وہ قرآن و حدیث میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی منکر تھا اور یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ صفات، اسماء اور افعال سے موصوف نہیں ہے وہ اپنے افکار جعد بن درہم سے لیتا تھا جو اصلاً تو یہودی تھا، لیکن بظاہر مسلمان بن کر مسلمانوں میں یہودی افکار پھیلاتا تھا۔ [1]
محدثین میں سے امام احمد، امام عبدالرحمن بن ابی حاتم، امام عثمان بن سعید دارمی اور امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ وغیرہ نے جہم بن صفوان کے عقائد اور افکار کے رد میں کتابیں لکھی ہیں اور کتاب و سنت کی نصوص سے ان کو باطل قرار دیا ہے۔ کوثری ائمہ سنت کے ان اعمال سے بہت نالاں تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب تأنیب الخطیب کے صفحہ ۱۱۵ پر علم جرح و تعدیل کے مسلم امام عبدالرحمن بن ابی حاتم کی کتاب ’’الرد علی الجہمیہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کتاب کے مصنف کی عقل ماری گئی ہے … وہ علم کلام سے ناواقف ہے اس کے باوجود علم اصول دین کے مشکل مسائل سے تعرض کر رہا ہے۔‘‘
صفحہ ۱۵۱ پر امام احمد کے بیٹے امام عبداللہ بن احمد بن حنبل اور ان کی کتاب ’’السنۃ‘‘ کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے:
’’السنۃ کے مندرجات سے اس کے مصنف کا مبلغ علم معلوم کیا جا سکتا ہے، ابوحنیفہ کے حق میں ایسے شخص کی رائے ناقابل تصدیق ہے۔‘‘
کتاب کے صفحہ ۱۶ پر امام عثمان بن سعید دارمی اور جہمیہ فرقہ کے رد میں ان کی کتاب ’’النقض‘‘ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:
’’کھلا ہوا مجسم -اللہ کے لیے جسم کا قائل- ائمہ تنزیہ -اللہ کو صفات سے عاری قرار دینے والے- سے عداوت رکھنے والا ہے۔ ایسا شخص اللہ سبحانہ کے بارے میں جاہل ہوتا ہے۔‘‘
صفحہ ۱۹ پر مشہور امام حدیث محمد بن اسحاق بن خزیمہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ابن خزیمہ کا اعتقاد کتاب ’’التوحید‘‘ سے ظاہر ہے جس کے بارے میں ’’تفسیر کبیر‘‘ کے مصنف کا قول ہے کہ یہ کتاب الشرک ہے۔‘‘
صاحب تفسیر کبیر سے مراد فخر الدین رازی ہیں جن کو ’’برعکس نام دھن زنگی را کافور‘‘ کے طریقے پر امام کہا جاتا ہے۔ جبکہ انہوں نے تفسیر کبیر اور اپنی دوسری کتابوں میں جہم بن صفوان کے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ اس کتاب میں مناسب محل پر ان کے بعض افکار پر تبصرہ کیا جا چکا ہے۔
امام احمد، جن کا ذکر ان سے اختلاف رکھنے والے بھی احترام سے کرتے ہیں وہ بھی کوثری کی طعن و تشنیع سے نہیں بچے ہیں ایک جگہ ان کے بارے میں لکھا ہے:
[1] معجم الفاظ العقیدۃ: ص ۱۲۸-۱۲۹، میزان الاعتدال: ص ۱۵۹، ج ۲، لسان المیزان: ص ۱۷۹، ج ۲