کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 424
اپنے اسی جذبۂ انفرادیت کے تحت علامہ کشمیری نے دوسرے علمائے احناف کے برعکس ’’قطع ید‘‘ کی حدیثوں میں یہ فرما کر تطبیق دی ہے کہ:
’’آغاز امر میں چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا اس وقت دی جاتی تھی جب ’’مال مسروق‘‘ کی مالیت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو، جیسا کہ صحیحین میں مروی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے اور ابتدا میں ڈھال کی قیمت کم تھی بھی، پھر مسلمانوں کی آسودگی میں اضافے کے ساتھ ڈھال کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا اور وہ دس درہم ہو گئی اور اسی دس درہم کو معیار قرار دے دیا گیا اور ڈھال کی قیمت کو غیر معتبر قرار دے دیا گیا۔‘‘ [1]
علامہ کشمیری کو بجا طور پر یہ معلوم تھا کہ مجن -ڈھال- والی روایات ہی صحیح ہیں اور صحیحین میں آنے کی وجہ سے قطعی الثبوت بھی ہیں جیسا کہ ان کا عقیدہ تھا، جبکہ دس درہم والی روایتوں میں سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امام ابوحنیفہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے ’’مال مسروق‘‘ کی قیمت دس درہم ضروری قرار دیتے تھے لہٰذا ان کے قول کے مقابلے میں صحیح ترین حدیثوں پر عمل بھی ’’تقلید کی شریعت‘‘ میں ناقابل معافی جرم تھا، اس طرح انہوں نے بیک جنبش قلم صحیح حدیث سے ثابت چوتھائی دینار یا تین درہم کو غیر معتبر اور صحت سے عاری روایات میں مذکور دس درہم کو معتبر قرار دے دیا اور اس کو ’’حلق‘‘ سے نیچے اتارنے کے لیے یہ تقریر کر ڈالی کہ ’’شروع میں ڈھال کی قیمت تین درہم تھی جو بڑھتے بڑھتے دس درہم ہو گئی، اور اسی کو ’’حد سرقہ‘‘ کا نصاب مقرر کر دیا گیا۔
کوثری کے عقائد:
محمد زاہد کوثری کا تعارف کراتے ہوئے میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ ان کے دل میں غیر احناف، غیر متکلمین اور غیر صوفیا اور ائمہ میں امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد اور متاخرین ائمہ احناف کے علاوہ دوسرے تمام ائمہ اور محدثین کے خلاف زہر بھرا ہوا تھا دوسرے لفظوں میں احناف کے سوا دوسرے تمام اہل حدیثوں اور اہل سنت و جماعت سے ان کو شدید عداوت اور دشمنی تھی اور اپنی تحریروں میں وہ موقع اور بے موقع ان اہل خیر کا ذکر نہایت نازیبا القاب سے کرتے رہتے تھے اور اہل سنت و جماعت کے علماء کو مجسمہ، مشبہہ اور حشویہ -اللہ کے لیے جسم کے قائل، اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں حشو و زوائد کے مدعی- سے یاد کرتے تھے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ جس طرح اہل سنت و جماعت کے علماء کرتے ہیں کوئی نہیں کرتا،البتہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی کوئی تاویل کرنے کے بجائے ان کو ان کے حقیقی معنوں میں لیتے ہیں اور اسی کو متکلمین اور صوفیا تجسیم اور تشبیہ سے تعبیر کرتے ہوئے محدثین کو مورد الزام گردانتے ہیں ۔
جہم بن صفوان متوفی ۱۲۴ھ کا ذکر اس کتاب میں آ چکا ہے۔ جہمیہ فرقہ اسی کی طرف منسوب ہے۔ جہم کے تمام عقائد
[1] فیض الباری، ص: ۴۴۶-۴۴۷، ج ۴