کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 423
اعلیٰ درجے پر ہے ایسی صورت میں دس درہم والی روایت ناقابل التفات تھی، نہ کہ اس پر عمل احتیاط کا تقاضا تھا، جو حدیث ثابت نہیں وہ حدیث نہیں اور جو حدیث نہیں وہ شرعی دلیل نہیں اور جو شرعی دلیل نہ ہو اس کو شرعی دلیل بنا کر اس پر عمل کرنا اپنے آپ کو شارع قرار دینا ہے جو اگر قصد و ارادے سے ہو تو ایسا کرنے والے کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے، کیونکہ یہ عمل ’’اشہد ان محمد رسول اللہ‘‘ کے خلاف ہے۔
فقہائے احناف کا یہ طرز عمل ایک عجیب و غریب طرز عمل ہے۔ رفع یدین نہ کرنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور رفع یدین کرنے کی دسیوں حدیثیں صحیح اور بے غبار ہیں ، مگر امام ابوحنیفہ سے رفع یدین نہ کرنے کے ثبوت کی بنیاد پر رفع یدین نہ کرنا مطلوب قرار پایا اور کرنا ممنوع، بلکہ قابل عقاب، اور جن لوگوں نے حدیثوں پر بڑا کرم کیا ہے جیسے احکام القرآن کے مصنف ابوبکر احمد بن علی جصاص اور علامہ انور کشمیری تو انہوں نے رفع یدین کو جائز قرار دے کر اسلام پر احسان عظیم کیا ہے؟!!
رفع یدین والی کہانی قطع ید کے موقع پر بھی دہرائی گئی ہے اس طرح نہ جانے کتنی صحیح حدیثوں کو ٹھکرا دیا گیا اور کتنی ضعیف، منکر اور موضوع روایتوں کو شرعی دلائل قرار دے دیا گیا ہے۔
یہاں ناسخ اور منسوخ کی بات بھی بے محل ہے، کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتاہے جب کہ ایک ہی مسئلہ سے متعلق مثبت اور نافی دونوں طرح کی حدیثیں جمع ہو جائیں اور اپنی صحت اور ثبوت میں دونوں یکساں درجات کی حامل ہوں ، لیکن یہاں قطع ید کے مسئلہ میں تو دس درہم والی روایتیں ثابت ہی نہیں ہیں کہ ان کے ناسخ یا منسوخ ہونے کا مسئلہ پیدا ہوتا، یہاں تو امام کے قول اور صحیح حدیثوں کے درمیان تعارض اور تصادم پیدا ہو گیا تھا اور ازراہ تقلید اور نام نہاد احتیاط کے تقاضے سے حدیث رسول کو ترک کر دیا گیا اور قول امام پر عمل کو لازم قرار دے دیا گیا۔[1]
تمام حدیثوں میں تطبیق کا انوکھا انداز:
امام محمد کے قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بتقاضائے احتیاط دس درہم والی روایت کو معیار عمل بنایا گیا، چنانچہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی نے اس احتیاط پسندی کی صراحت کر دی ہے۔[2]اور کوثری کی عبارت سے بھی اسی رجحان کا اظہار ہوتا ہے، البتہ امام العصر نے اپنے علمی مقام و مرتبے اور حدیث دانی کی شہرت کے پیش نظر حدیثوں میں تطبیق کا انوکھا انداز اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے اسی جذبۂ انفرادیت کے تحت انہوں نے نزول وحی کی حدیث میں ’’گھنٹی کی آواز‘‘ کی مانند آواز کو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی آواز قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس سے اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینا لازم نہیں آتا، بلکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ قرار دینا ان کے امام، ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس میں داخل ہے اسی وجہ سے اس نے کہا ہے: ’’تنزیہ کیے جا تشبیہ دیے جا‘‘؟!!
[1] صحیح فرمایا ہے مولانا حالی نے: ’’اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں ۔‘‘
[2] التعلیق الممجد: ص ۶۴، ج ۳