کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 422
’’میں ابوحنیفہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس سلطان کی طرف سے ایک قاصد آیا اور عرض گزار ہوا کہ: امیر کہتے ہیں :
’’ایک شخص نے کھجور کے ایک پودے کی چوری کی ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
اس کے جواب میں انہوں نے کسی ’’ہچکچاہٹ‘‘ کے بغیر کہا:
’’اگر پودے کی قیمت دس درہم ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دو …‘‘
کوثری اپنی کتاب تأنیب میں (ص ۹۲) خطیب بغدادی کے بیان کردہ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’امام محمد بن حسن شیبانی ’’الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں : ہمیں ابوحنیفہ نے حماد سے، اور انہوں نے ابراہیم سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:
((لا یقطع السارق فی اقل من ثمن المجن، و کان ثمنہ یومئذ عشرۃ دراہم))
’’چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں نہیں کاٹا جائے گا جس کی قیمت ان دنوں دس درہم تھی۔‘‘
اور امام محمد نے مؤطا میں کہا ہے:
’’قطع ید کے مسئلہ میں لوگوں میں اختلاف ہے، اہل مدینہ کا قول ایک چوتھائی دینار کے حق میں ہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں احادیث بھی روایت کی ہیں ، اور اہل عراق کا قول ہے کہ دس درہم سے کم کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، انہوں نے بھی اس کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، عمر، عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اور کئی افراد سے حدیثیں روایت کی ہیں اور جب حدود کے معاملے میں اختلاف رونما ہو گیا تو ’’معتمد علیہ‘‘ کو اختیار کر لیا گیا جو ابوحنیفہ اور ہمارے تمام فقہاء کا مسلک ہے۔‘‘[1]
امام محمد کے قول کا ذکر کرنے کے بعد کوثری رقم طراز ہیں :
’’ربع دینار تین درہم کی طرح ہے اور حدود کا شمار ان احکام میں ہوتا ہے جو شبہات کے موقع پر ٹال دیے جاتے ہیں اور نافذ نہیں کیے جاتے، اس تناظر میں قطع ید کے مسئلہ میں دس درہم کی روایت کو اختیار کرنے میں زیادہ احتیاط تھی، خاص طور پر جبکہ یہ بھی معلوم نہیں ہے ان مختلف آثار میں ناسخ کیا ہے اور منسوخ کیا؟‘‘
تبصرہ:
کوثری کے اس مسلک یا طرز عمل پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ اگر قطع ید کے مسئلہ میں تین درہم اور دس درہم دونوں کی روایتیں صحیح ہوتیں اگرچہ ان کے درجۂ صحت مساوی نہ ہوتے، اس صورت میں احتیاط اور عدم احتیاط کی بات درست ہوتی، لیکن یہاں تو امر واقعہ یہ ہے کہ دس درہم سے متعلق کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے اور تین درہم کی روایت صحت کے
[1] ص ۶۳-۶۴، ج ۳