کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 420
دس درہم کی حدیثوں کی استنادی حیثیت ۱۔ پہلی حدیث: امام احمد فرماتے ہیں : ہم سے ابن ادریس -عبداللہ- نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابن اسحاق -محمد- نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ڈھال -مجن- کی قیمت دس درہم تھی۔ [1] یہ حدیث ضعیف ہے جس کا سبب محمد بن اسحاق کا ’’عنعنہ‘‘ ہے جو مدلس تھے اور ائمہ حدیث کا ان کی ’’معنعن‘‘ حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ اگر یہ رویات صحیح احادیث کے خلاف نہ بھی ہوتی تب بھی ناقابل اعتبار ہوتی۔ اب جبکہ یہ صحیح حدیثوں کے خلاف بھی ہے تو منکر ہے ویسے بھی عمرو بن شعیب اور ان کے والد شعیب عدالت کے سب سے نچلے درجہ پر تھے ایسے راوی اپنے سے قوی تر راوی کی تائید اور متابعت کے محتاج ہوتے ہیں ، جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ ان کی روایت صحیح ترین حدیث کی مخالف ہے۔ یہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی آتی ہے جس میں محمد بن اسحاق نہیں ہیں ، بلکہ ان کی جگہ حجاج بن ارطاۃ ہیں ، مگر ان کا حال محمد بن اسحاق سے بھی برا ہے۔ یہ حجاج تدلیس کی صفت سے موصوف ہونے کے ساتھ روایتِ حدیث میں غلطیوں کا بھی ارتکاب کرتے تھے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خبر دی گئی ہے: ((لا قطع فیما دون عشرۃ دراہم)) ’’دس درہم سے کم کی چوری میں قطع ید نہیں ہے۔‘‘ [2] ۲۔ دوسری حدیث: امام ابو داود کہتے ہیں : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن ابی سری عسقلانی نے بیان کیا، اور الفاظ عسقلانی کے ہیں اور زیادہ کامل ہیں ، دونوں نے کہا: ہمیں ابن نمیر -عبداللہ- نے محمد بن اسحاق سے، انہوں نے ایوب بن موسیٰ سے، انہوں نے عطاء -بن رباح- سے، اور عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، ابن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ((قطع رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ید رجل فی مجن قیمتہ دینار او عشرۃ دراہم)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ہاتھ ایک ایسی ڈھال کی چوری میں کاٹ دیا جس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی۔‘‘ [3] اس سند میں جیسا کہ ظاہر ہے محمد بن اسحاق نے ایوب بن موسیٰ سے بذریعہ ’’عن‘‘ حدیث روایت کی ہے جو ان
[1] مسند: ۶۶۸۲ [2] مسند: ۶۹۰۰ [3] ابو داود ۴۳۸۷، نسائی کی سنن کبریٰ: ۷۴۳۷