کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 416
میں نہ کہ جواز میں ۔‘‘ [1] پھر ابوبکر جصاص کا ایسا قول نقل کیا ہے جس سے ’’رفع یدین‘‘ کرنے کے جواز کی تائید ہوتی ہے۔ یہاں ان کے قلم سے ایک ایسا نازیبا جملہ نکل گیا ہے جس نے امام العصر اور محدث ہونے کی ان کی شہرت پر بلڈوزر چلا دیا ہے، فرماتے ہیں : ’’فاسترحت حیث تخلصت رقبتی من الاحادیث الثابتۃ فی الرفع‘‘۔ ’’رفع یدین کے مسئلہ میں ثابت احادیث سے اپنی گردن کے چھٹکارا پا لینے سے مجھے سکون قلب حاصل ہو گیا۔‘‘ غور فرمائیے ایک عام مسلمان نہیں ، بلکہ ایک امام زمانہ اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے کہ اس کو کسی مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنت پر عمل سے نجات مل گئی۔‘‘ یہاں اپنے قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مولانا عبدالحی لکھنوی امام العصر پر سبقت لے گئے اور پوری شجاعت اور علمی امانت داری کے ساتھ اعلان کر دیا کہ: ’’رفع یدین کرنے اور نہ کرنے دونوں کا ثبوت ملتا ہے، مگر رفع یدین کرنے کے راوی صحابہ کرام کی تعداد ’’جم غفیر‘‘ سے عبارت ہے اور رفع یدین نہ کرنے کے راویوں کی تعداد کم بھی ہے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی سے رفع یدین نہ کرنے کی روایت صحیح بھی نہیں ہے۔‘‘ مولانا عبدالحی لکھنوی نے ’’رفع یدین‘‘ کے نسخ کا دعویٰ کرنے والے طحاوی، ابن الہمام اور عینی وغیرہ پر سخت تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر ’’یہ ثابت ہو کہ کوئی صحابی رفع یدین نہیں کرتا تھا تو اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ اس کے نزدیک رفع یدین منسوخ تھا،۔ بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ اس کے نزدیک رفع یدین ’’سنت مؤکدہ‘‘ نہیں تھی۔‘‘ [2] یاد رہے کہ رفع یدین نہ کرنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی حدیث بھی نہیں ۔ اس کے باوجود رفع یدین نہ کرنا افضل ہے؟!! چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا: چوتھائی دینار یا تین درہم سے کم مالیت کی چوری میں قطع ید نہیں : ۱۔ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ابن شہاب سے، انہوں نے عمرہ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((تقطع الید فی ربع دینار فصاعدا)) ’’چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔‘‘ [3]
[1] ص ۲۵۷-۲۵۹ ج۲ [2] التعلیق الممجد علی مؤطا محمد ص ۳۸۸-۳۸۹، ج ۱ [3] بخاری: ۶۷۸۹، مسلم ۱۶۸۴