کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 415
مستقلاً منع ہے۔ قطع نظر اس کے کہ پیشاب کرنے والا اس پانی سے غسل کرے یا نہ کرے۔ پھر اس بات سے منع کر دیا گیا کہ اگر پانی کم ہو تو اس سے غسل کیا جائے۔ کیونکہ اتنے پانی میں پیشاب کرتے ہی وہ ناپاک ہو جائے گا اور اس سے پانی کے تینوں اوصاف، رنگ، بو اور مزہ میں سے کوئی وصف بدل جائے گا۔ اور ’’حدیث قلتین‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کھڑا پانی اگر دو مٹکوں کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو جائے تو پھر وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ گویا ’’ماء کثیر‘‘ کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ وہ دو مٹکوں کے برابر ہو۔ صحیح حدیثوں کا انکار اور ضعیف حدیثوں سے استدلال: قدیم زمانے سے احناف کی یہ پہچان رہی ہے کہ ان کے یہاں صحیح حدیثوں کے انکار اور ضعیف باطل اور منکر روایتوں سے استدلال کا رجحان غالب رہا ہے اور اس عجیب و غریب طرز عمل سے اکابر احناف کا دامن بھی پاک نہیں رہا ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اپنے مسلک کے دفاع کا جذبہ ان کے نزدیک حدیث رسول کے دفاع اور اس پر عمل سے کہیں زیادہ محبوب رہا ہے اور یہ جانتے ہوئے صحیح حدیثوں سے پیچھا چھڑانے اور اپنے مسلک سے ہم آہنگ ضعیف ترین، بلکہ باطل روایتوں سے استدلال عام رہا ہے کہ جن حدیثوں سے پیچھا چھڑایا جا رہا ہے ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر صحیح اور ثابت ہے اگر یہ طرز عمل احکام القرآن کے مصنف ابوبکر احمد بن علی جصاص اور کوثری کے ساتھ خاص ہوتا تو اس خیال سے ان کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ جصاص معتزلی ہونے کی وجہ سے حدیث اور محدثین سے پرخاش رکھتے تھے اور کوثری کو تمام محدثین، بلکہ اہل سنت و جماعت کے نام سے نفرت تھی حتیٰ کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کی زہر پاشیوں سے محفوظ نہیں رہے، لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور تعجب بھی کہ امام طحاوی جیسا قد آور عالم حدیث اور کشمیری جیسا امام العصر بھی اس مذموم صفت سے پاک نہیں رہا۔ امام العصر علامہ کشمیری تو ان علمائے احناف میں سے ایک تھے جو صحیحین، بخاری اور مسلم کی حدیثوں کو قطعی الثبوت مانتے تھے۔[1] اس کے باوجود ضعیف حدیثوں ، قیاس و رائے اور فلسفیانہ مجادلوں کے ذریعہ صحیح حدیثوں سے پیچھا چھوٹنے پر راحت محسوس کرتے تھے۔ ’’رفع الیدین فی الصلوۃ‘‘ کا مسئلہ احناف اور اہل حدیث اور احناف و شوافع کے اختلافی مسائل میں سرفہرست ہے اور علامہ کشمیری کو حدیثوں کے وسیع علم کے نتیجے میں یہ معلوم تھا کہ ’’رفع یدین‘‘ ثابت ہے اور رفع یدین کرنا نہ کرنے پر راجح ہے۔ چنانچہ انہوں نے صریح لفظوں میں لکھ دیا ہے، بلکہ اعتراف کر لیا ہے کہ: ((فقد ثبت الامران عندی -الرفع و الترک- ثبوتا لامرد لہ، و لا خلاف الا فی الاختیار، و لیس فی الجواز)) ’’میرے نزدیک دونوں صورتیں -رفع یدین کرنا اور نہ کرنا- ناقابل تردید طریقے سے ثابت ہے اور اختلاف اگر ہے تو افضلیت
[1] فیض الباری: ص ۴۵-۴۷، ج ۱