کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 414
سے نہیں تھا، اس لیے اپنے مسلک کو قوی دکھانے کے لیے یہ دعویٰ کر دیا گیا کہ ’’حدیث قلتین‘‘ صحیح نہیں ہے اس حجت سے نہ جانے کتنی صحیح ترین حدیثوں کا انکار کر دیا گیا اور اہل سنت و جماعت ہونے پر آنچ بھی نہیں آئی۔ ۵۔ کوثری کا پانچواں دعویٰ یہ ہے کہ ’’امام ابن دقیق العید نے عمدۃ الاحکام کی شرح میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’کھڑے پانی‘‘ کی حدیث سے احناف کا استدلال زیادہ قوی ہے۔ مگر کوثری کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے۔ ابن دقیق العید مذکورہ شرح میں تحریر فرماتے ہیں : یہ حدیث -کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کرنے والی حدیث- ان حدیثوں میں سے ایک ہے جس سے احناف کھڑے پانی کے نجس ہونے پر استدلال کرتے ہیں ، اگرچہ وہ دو مٹکوں -قلوں - سے زیادہ ہو، جبکہ اس حدیث کی عبارت ’’عموم‘‘ پر دلالت کرتی ہے اور شوافع اس عموم کی تخصیص کرتے ہوئے ’’پیشاب نہ کرنے‘‘ کو دو مٹکوں سے کم پانی پرمحمول کرتے ہیں ۔ لہٰذا دونوں حدیثوں پر ایک ساتھ عمل کرنے کے لیے حدیث میں عمومی ’’نہی‘‘ کو دو مٹکوں سے کم پانی کے لیے خاص مانا جائے، اس لیے کہ ’’قلتین کی حدیث‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ دو قلوں کے بقدر اور اس سے زیادہ پانی ’’نجس‘‘ نہیں ہوتا اور یہ چیز ہماری ذکر کردہ حدیث کے عموم سے خاص ہے اور خاص عام پر مقدم ہوا کرتا ہے۔ [1] ابن دقیق العید کی مذکورہ بالا عبارت ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ ان کو احناف کے طرز استدلال پر سخت اعتراص ہے، نہ کہ اس کے قوی ہونے کا اعتراف۔ زیلعی کا سہو: حافظ جمال الدین عبداللہ بن یوسف زیلعی حنفی نے ’’نصب الرایہ تخریج احادیث الہدایہ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ابن دقیق العید نے اپنی کتاب ’’الامام‘‘ میں ’’حدیث قلتین‘‘ اور اس کے تمام طرق اور سندوں پر ہمہ جہتی بحث کی ہے جس کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ انہوں نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [2] تو یہ حافظ زیلعی کی بھول ہے، کیونکہ عمدۃ الاحکام کی شرح کی مذکورہ بالا عبارت اس امر میں قاطع ہے کہ قلتین کی حدیث صحیح اور معتمد علیہ ہے۔ صورت مسئلہ: صحیح مسلم کی حدیث ’’لا یبولن احدکم فی الماء الدائم ثم یغتسل منہ‘‘ ’’تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں پیشاب اور پھر اس سے غسل نہ کرے۔‘‘ [3] اس حدیث میں بنیادی طور پر کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ’’ثم‘‘ فرما کر اس بات کو بعید از عقل قرار دیا گیا ہے کہ کوئی سمجھ دار آدمی اس پانی سے غسل کرے گا؟ دوسرے لفظوں میں کھڑے پانی میں پیشاب کرنا
[1] ص ۱۲۱-۱۲۵، ج ۱ [2] ص ۱۵۴-۱۵۵، ج ۱ [3] نمبر ۲۸۲