کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 413
کوثری کی اس بڑ کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ کے معنیٰ اور مفہوم کا تعین موضوع کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ’’قلہ‘‘ کا اطلاق ’’جرہ‘‘ کی طرح چھوٹے، بڑے اور متوسط سب پر ہوتا ہے، مگر طہارت کے جس موضوع سے متعلق شارع علیہ السلام نے اس کا ذکر کیا ہے اس سے یہی متبادر ہوتا ہے کہ مراد بڑا قلہ ہے اور اسی میں احتیاط بھی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا ’’قلہ‘‘ یا ’’مٹکا‘‘ ’’ہَجَر‘‘ کا ہوتا تھا اور ہَجَر مدینہ کے ایک مضافاتی گاؤں کا نام ہے۔ بعض اہل لغت نے ’’قلہ‘‘ کی تفسیر ’’قِربتین‘‘ سے کی ہے اور قربہ ’’مشک‘‘ کو کہتے ہیں اس طرح دو مٹکے چار مشک کے مساوی ہوئے۔ [1] قلتین کی حدیث کا انکار کرنے والوں نے اس کے بارے میں وہی طرز عمل اختیار کیا ہے جو طرز عمل یہودیوں نے گائے ذبح کرنے کے حکم سے متعلق اختیار کیا تھا، اگر وہ کسی بھی گائے کو ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی، مگر انہوں نے اس کے بارے میں سوال پر سوال کر کے اس کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا دیا۔ ’’حدیث قلتین‘‘ کی صحت شک و شبہ سے پاک ہے۔ معقول حجم اور گنجائش رکھنے والا ہر مٹکا مراد لیا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ اس میں عیب لگا کر اس کو مسترد کرنا تھا، اس لیے کہ وہ حنفی مسلک سے متعارض تھی، لہٰذا قدیم زمانے سے آج تک اس حدیث کو نشانۂ اعتراض بنایا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ کو قرآن پاک کی اس آیت کی روشنی میں سمجھا جا سکتا تھا اور سمجھا جا سکتا ہے جو قسم کے کفارہ سے متعلق ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ﴾ (المائدۃ: ۸۹) ’’اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا وہ کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک گردن کو آزاد کرنا ہے۔‘‘ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ مسکینوں میں طویل القامت بھی ہوتے ہیں اور پستہ قامت بھی، موٹے بھی ہوتے ہیں اور نحیف بھی اس اعتبار سے ان کے کھانے کی مقدار ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، پھر کھانے اور لباس کی دسیوں قسمیں ہوتی ہیں اسی طرح ان میں اوسط درجہ متعین کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اگر یہودیوں کو یہ حکم دیا گیا ہوتا تو وہ دسیوں سوال کر کے اس کو ناقابل عمل قرار دینے کی کوشش کرتے، مگر ان تمام اعتبارات کو حجت بنا کر قرآنی حکم کا انکار اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس طرح ملت سے نکال باہر کر دیے جانے کا اندیشہ تھا، اور چونکہ یہ اندیشہ حدیث کی صحت کے انکار
[1] سنن بیہقی ص ۲۶۳-۲۶۴، ج ۱