کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 412
عبیداللہ بن عبداللہ سے رویات کرتے ہوئے بیان کیا۔ پھر اس سند کی تائیدِ مزید حدیث نمبر ۴۷۵۳ کی سند سے ہوتی ہے جو یہ ہے: ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا: ہم سے حماد بن سلمہ نے، عاصم بن منذر سے اور انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا۔ رہا اس حدیث کا متن تو اس میں ’’اضطراب‘‘ کوئی کور چشم ہی دیکھ سکتا ہے، چنانچہ: ’’اذا بلغ الماء قلتین لم ینجسہ شیء‘‘ ’’اگر پانی دو مٹکوں کے بقدر پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کر سکتی۔‘‘ ’’اذا کان الماء قدر قلتین لم یحمل الخبث‘‘ ’’اگر پانی دو مٹکوں کے بقدر ہو تو گندگی قبول نہیں کرتا۔‘‘ ’’اذا کان الماء قلتین فانہ لا ینجس‘‘ ’’اگر پانی دو مٹکے ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ جس حدیث کا تعلق نماز جیسی اہم عبادت کی اہم اور بنیادی شرط ’’طہارت‘‘ سے ہو وہ بار بار زیر بحث آئی ہو گی اور اس کے بنیادی راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس کے بارے میں بار بار سوال کیا ہو گا اور انہوں نے ایک ہی بات کو ایسے مترادف الفاظ میں بیان کیا ہو گا کہ مسئلہ بھی واضح ہو جائے اور تعبیر بھی ہم شکل رہے۔ ۳۔ زاہد کوثری کا حدیث ’’قلتین‘‘ کی صحت پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ بقول اس کے اس کو صرف ان لوگوں نے صحیح قرار دیا ہے جو حدیث کی تصحیح میں سہل انگاری سے کام لیتے رہے ہیں ۔ تو کوثری کا یہ اعتراض ان کی ہٹ دھرمی اور انکار حقیقت کا ترجمان ہے، کیونکہ اس حدیث کو صحیح قرار دینے والے وہ عظیم المرتبت محدثین اور اہل علم ہیں ، جن میں امام شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید قاسم بن سلام شامل ہیں ۔ [1] امام شافعی نے ’’الام‘‘ کی کتاب ’’اختلاف الحدیث‘‘ میں اپنے وقت کے اکابر اہل علم اور منکرین حدیث کے ساتھ حدیث کی شرعی حیثیت اور بعض صحیح حدیثوں کے ثبوت کے موضوع پر اپنے علمی مناظروں کے تذکرے کیے ہیں ، جن میں سے ایک امام محمد بن حسن بھی ہیں جن کے ساتھ انہوں نے حدیث سے متعلق مختلف موضوعات پر مناظرے کیے ہیں ان میں سے ایک اسی زیر نظر حدیث قلتین کے ثبوت کے موضوع پر ہے اور انداز بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امام محمد نے امام شافعی کے ساتھ بحث و نظر کے بعد اس حدیث کی صحت تسلیم کر لی ہے۔ واضح رہے کہ امام شافعی نے جن لوگوں کے ساتھ مناظرے کیے ہیں ان میں سے کسی کے نام کی تصریح نہیں کی ہے، لیکن مناظرے کے موضوع اور اس کے فحوی سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے مدمقابل کون ہے۔ [2] ۴۔ کوثری کی چوتھی بڑ یہ ہے کہ ’’قلتین -مٹکوں - کے غیر متعین ہونے کی وجہ سے یہ حدیث دلیل بننے کے قابل نہیں ہے۔‘‘
[1] ترمذی: ۶۲ [2] ص ۱۷۳۶