کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 411
خلاف ہو تو اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے وہ حدیث معلوم ہی نہ رہی ہو اور حدیث حجت باقی رہے گی۔[1] شاہ ولی اللہ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں یہ دکھانے کے بعد کہ بہت سی صحیح حدیثیں جو تابعین کو نہیں معلوم تھیں شافعی کو معلوم ہو گئیں ، لکھا ہے کہ: ’’ان حدیثوں پر تابعین کا عدم عمل ان کی صحت کو داغ دار نہیں بناتا۔‘‘ [2] کوثری کے دعویٰ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں مجاہد اور عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر اور بعض فقہائے مکہ سے مروی ہے جس پر ان کا عمل بھی رہا ہے، پھر متعدد صحابہ اور تابعین، مثلاً: عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو بن عاص، سعید بن جبیر، مسروق بن اجدع، محمد بن سیرین اور ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود وغیرہ سے ’’قلہ‘‘ کی تفسیر اور تعیین سے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن دار قطنی میں جو اقوال مروی ہیں ان سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن صحابہ اور تابعین نے یہ حدیث روایت کی ہے ان سب کا اس پر عمل تھا اور وہ اس کو حجت مانتے تھے۔ کیا ان تفصیلات کے بعد بھی کوثری کا یہ دعویٰ درخور اعتنا ہے کہ ’’دو سو سالوں تک کسی فقیہ کا اس حدیث پر عمل نہیں تھا۔‘‘؟ ۲۔ کوثری کا دوسرا دعویٰ ہے کہ حدیث میں سخت اضطراب اس پر عمل میں مانع رہا ہے۔ تو عرض ہے کہ حدیث کی سند یا متن میں سخت اضطراب سے ایسا اختلاف مراد ہے جس کی وجہ سے حدیث کی تمام سندوں کو ایک ساتھ صحیح ماننا یا ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینا ممکن نہ ہو، تو اس طرح کا اضطراب یا اختلاف نہ اس حدیث کی سند میں ہے اور نہ متن میں ، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: (۱) عن الولید بن کثیر، عن محمد بن عباد بن جعفر، عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر۔ (۲) عن الولید بن کثیر، عن محمد بن جعفر، عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر [3] ان دونوں سندوں میں ’’ولید بن کثیر سے حدیث کے راوی ابو اسامہ -حماد بن اسامہ- ہیں ، جن سے امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ’’عن الثقۃ‘‘ -ثقہ سے روایت ہے- کہہ کر روایت کی ہے۔ [4] حدیث نقل کرنے کے بعد حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس سند میں ابو اسامہ نے محمد بن عباد بن جعفر -بن رفاعہ مخزومی- کو محمد بن جعفر -بن زبیر بن عوام- سے ملا دیا ہے۔ جوڑ دیا ہے، کبھی انہوں نے یہ حدیث، الولید بن کثیر، عن محمد بن جعفر کی سند سے اور کبھی الولید، عن محمد بن عباد کے طریق سے روایت کی ہے۔ [5] معلوم رہے کہ ولید بن کثیر اس حدیث کی روایت میں منفرد نہیں ہیں ، بلکہ محمد بن اسحاق اس کی روایت میں ان سے متفق ہیں جس کو اصطلاح میں ’’متابعت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، چنانچہ مسند امام احمد کی حدیث نمبر ۴۶۰۵ کی سند ہے: ہم سے عبدہ -ابن سلیمان کلابی- نے بیان کیا، کہا: ہم سے محمد بن اسحاق نے، محمد بن جعفر بن زبیر سے اور انہوں نے
[1] ص ۸، ج ۲ [2] ص ۴۲۲، ج ۱ [3] مستدرک حاکم: ۴۷۰-۴۷۱۔ [4] حاکم ص ۱۰۴ [5] ص ۱۰۴-۱۰۵