کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 410
میں بعض صحیح احادیث سے متعلق کوثری کی غلط بیانیوں کا جو جواب نقل کی جا رہا ہے وہ ہے تو ’’التنکیل‘‘ سے ماخوذ مگر بیان و اختصار میرا ہے: پہلی غلط بیانی: حدیث قلتین: ’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ویرانے میں موجود ایسے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس کا رخ چوپائے اور درندے کرتے رہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ((اذا کان الماء قلتین لم ینجسہ شیء)) ’’اگر پانی دو مٹکوں کے بقدر ہو تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کر سکتی۔‘‘ [1] یہ حدیث مذکورہ بالا الفاظ کے علاوہ ان الفاظ میں بھی مروی ہے: ((اذا کان الماء قلتین لم یحمل الخبث)) ’’اگر پانی دو مٹکوں کے بقدر ہو تو ناپاکی قبول نہیں کرتا، یعنی ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ کوثری کی ہرزہ سرائیاں : ۱۔ ۲۰۰ ہجری سے قبل کسی بھی فقیہ نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا ہے۔ ۲۔ اس میں بڑا اضطراب ہے۔ ۳۔ اس کو صرف ان لوگوں نے صحیح قرار دیا ہے جو تصحیح حدیث میں سہل انگاری سے موصوف رہے ہیں ۔ ۴۔ قلتین -مٹکوں - کے مفہوم کے غیر متعین ہونے کی وجہ سے اس کو صحیح قرار دینا اس کو لینے اور دلیل بنانے میں قطعاً نافع نہیں ہے۔ ۵۔ ابن دقیق العید -تقی الدین محمد بن علی بن وہب بن مطیع قشیری- نے عمدۃ الاحکام کی شرح میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’کھڑے پانی‘‘ کی حدیث سے احناف کا استدلال زیادہ قوی ہے۔ تبصرہ: اب میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوثری کی ان ہرزہ سرائیوں پر تبصرہ کر کے ان میں سے ہر ایک کو بے نقاب کروں گا۔ ۱۔ کوثری کا پہلا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰ ہجری سے قبل تک فقہاء میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو دلیل عمل نہیں بنایا ہے۔ کوثری کے اس دعویٰ کا پہلا جواب تو ان کے بہت بڑے عالم شمس الائمہ سرخسی نے اپنے اصول میں دے دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ کسی حدیث پر عدم عمل اس کے عدم ثبوت کی دلیل نہیں ہے اور اگر کسی صحابی کا عمل کسی حدیث کے
[1] مسند امام احمد: ۴۸۰۳، ابو داود: ۶۳،۶۴،۶۵، ترمذی: ۶۷، نسائی: ۳۲۷، ابن ماجہ: ۵۱۷، ۵۱۸