کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 408
جیسا کہ میں نے عرض کیا محمد زاہد کوثری کو حدیث کا وسیع علم حاصل تھا، خصوصیت کے ساتھ ’’اسماء الرجال‘‘ کی معرفت میں خصوصی مہارت حاصل تھی جس کو انہوں نے حدیث کی صحت و سقم معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے مقصد کی خاطر صحیح حدیث کو ضعیف قرار دینے اور ضعیف کو صحیح میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا اور عام علماء اور ارباب فکر و دانش کے علم الرجال سے نابلد ہونے کی وجہ سے ان کو گمراہ کرنے میں خاصے کامیاب رہے۔ معلوم رہے کہ ترکی اور افغانستان کے مسلمانوں کی اکثریت، بلکہ سارے ہی مسلمان حنفی ہیں اور صوفی بھی اور مسلکی تعصب میں ہندوستان اور پاکستان کے احناف سے بہت آگے ہیں ۔ طویل تجربے کی روشنی میں اگر یہ کہوں کہ ان دونوں ملکوں میں ’’حنفیت‘‘ دین ہے، فقہی مذہب و مسلک نہیں تو ذرہ برابر بھی مبالغہ نہ ہو گا۔ اس پس منظر میں اکابر دیوبند سے کوثری کے تعلق اور کوثری سے اکابر دیوبند کے تعلق کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اور چونکہ کوثری کو عربوں میں رہنے کی وجہ سے عربی زبان میں اظہار مطلب پر بڑی قدرت حاصل تھی اور اعتزالی اور متکلمانہ اسلوب بیان کی چھاپ نے ان کی تحریروں کو مناظرانہ اور مجادلانہ رنگ میں رنگ دیا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ محدثین اور غیر احناف کے حق میں نازیبا اور جارحانہ انداز بیان کے دلدادہ ہونے کی وجہ سے برصغیر کے علمائے احناف میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ محمد زاہد کوثری فقہی مسلک میں سخت حنفی، سلوک میں غالی صوفی اور عقائد میں بے لچک اشعری اور ماتریدی ہونے کی وجہ سے اسلاف اور محدثین سے اتنے فاصلہ پر کھڑے تھے کہ ان سے قربت کے تمام امکانات ناپید ہو چکے تھے۔ معتزلہ نے تو محدثین اور اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات سے متعلقہ قرآنی آیات اور احادیث کو حقائق پر محمول کرنے والوں کو صرف ’’مشبہہ‘‘ قرار دیا ہے اور اپنی کتابوں میں اسی لقب سے ان کو یاد کیا ہے، لیکن کوثری نے تشبیہ و تجسیم سے لے کر ہر مذموم صفت سے ان کو موصوف کیا ہے یاد رہے کہ کوثری کی تحریروں کے مطابق ہر غیر حنفی عقیدہ و عمل میں حق سے دور تھا، جبکہ محدثین اور اہل سنت و جماعت صحابہ کرام کے نقش قدم کے پیرو تھے اور اس طریقے پر تمام ائمہ فقہ، ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ گامزن تھے۔ امام طحاوی کی کتاب ’’عقیدۂ طحاویہ‘‘ میں امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کے عقائد بیان کیے گئے ہیں جو دو ایک تعبیروں کے علاوہ تمام کے تمام اسلاف کے عقائد ہیں اور ان میں معتزلہ اور متکلمین کے عقائد کا شائبہ تک نہیں ہے اور عقیدۂ طحاویہ کے گراں قدر شارح ابن ابی العز رحمہ اللہ حنفی نے اس کو عقیدہ کی ایک شاہکار کتاب میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن کوثری نے امام بیہقی کی مشہور کتاب ’’الاسماء و الصفات‘‘ کی جو تحقیق کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تاویل کر کے اس کو متکلمین کی کتاب بنا دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ متاخرین احناف عقائد و احکام دونوں میں اپنے اسلاف متقدمین کے طریقے کے خلاف ہیں ۔ یہاں اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ امام العصر مولانا کشمیری اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے باب میں تنزیہ اور تشبیہ دونوں کے قائل تھے اور اپنے امام ابن عربی کے قول