کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 407
ضرورت تھی؟ اور اللہ کے احکام، تعلیمات، ہدایات آواز ہی کی دوش پر تو آتی ہیں ، لہٰذا جب یہ معلوم ہو گیا کہ رسولوں کواللہ کے احکام فرشتوں ہی کے ذریعہ ملتے ہیں جس کے بیان سے قرآن بھرا پڑا ہے تو پھر یہ سوال لا یعنی ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی آواز اسی طرح پہنچ جاتی تھی جس طرح آسمانوں والوں کو پہنچ جاتی ہے؟ رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا آواز وصول کرنے والا فرشتہ اللہ کی آواز اسی طرح محفوظ کر لیتا تھا جس طرح فونو گراف کی پلیٹوں میں آوازیں محفوظ کر لی جاتی ہیں ؟ تو آپ کے اس سوال سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کی مت ماری گئی تھی جنہوں نے آپ کو امام العصر قرار دے رکھا تھا، اور مولانا تھانوی کو کیا ہو گیا تھا کہ آپ کے وجود کو اسلام کے آسمانی مذہب ہونے کی دلیل قرار دے بیٹھے۔ علامہ کشمیری صاحب! آپ نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۲ میں گھنٹی بجنے کی آواز کی مماثل آواز کو اللہ کی آواز قرار دینے والے آپ خود ہیں اور ایسا آپ نے کسی دلیل سے نہیں کیا ہے اپنی خواہش نفس یا ذوق سے کیا ہے اور اس دنیا میں اگر آپ کی یہ ’’بکواس‘‘ کسی کی بکواس سے ہم آہنگ ہے تو وہ ابن عربی ہے جس کو صوفیا کے علاوہ سب ملحدو زندیق قرار دے چکے ہیں جن کے اس حکم اور فیصلے کی سو فیصد تائید ان کی کتابوں سے ہوتی ہے۔ فرشتوں کے پاس فونو گراف اور گراموفون کے انکشاف سے یہ یقین ہو گیا کہ جو شخص کتاب و سنت سے دور ہو جائے وہ اسی پستی میں گر جاتا ہے جس پستی میں صوفیا گر چکے تھے۔ میں اس طرز تخاطب پر اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں ۔ بعض لوگوں نے اپنی شہرت سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میں نے امام العصر کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’فیض الباری علی صحیح البخاری‘‘ کے مضامین کی صرف ایک جھلک دکھائی ہے پوری کتاب اسی طرح کی خرافاتوں سے پر ہے۔ وہ الفاظ کی تشریح فارسی زبان سے کرتے ہیں ، عقائد کو فلاسفہ، متکلمین اور ابن عربی کے اقوال سے واضح کرتے ہیں اور احکام کے رد و قبول کا معیار احناف کی کتابیں ہیں ۔ حدیث اور کوثری: متاخرین علمائے احناف میں محمد زاہد کوثری ایک بہت بڑا نام ہے۔ حدیث کا علم رکھنے کے اعتبار سے بھی اور تعصبِ مسلکی کے اعتبار سے بھی، حدیث کو حنفیت کی تائید کے لیے استعمال کرنے کے اعتبار سے بھی اور غیر حنفیوں سے نفرت و کراہیت رکھنے کے اعتبار سے بھی، اور حنفیت کو ہر مسلک سے افضل دکھانے کے لیے حق کو باطل اور باطل کو حق قرار دینے کے اعتبار سے بھی اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر جائز و ناجائز ذریعہ اور حربہ استعمال کرنے کے اعتبار سے بھی۔ یوں تو کوثری کا تعلق ہندوستان سے نہیں تھا، کیونکہ وہ اصلاً ترکی کے رہنے والے تھے اور اپنی زندگی کا آخری طویل مرحلہ مصری دار الحکومت قاہرہ میں گزارا تھا۔ بایں ہمہ برصغیر کے احناف سے عموماً اور اکابر دیوبند سے خصوصاً نہایت گہرا اور مضبوط رشتہ و تعلق رکھتے تھے۔