کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 406
(۲) جب فرشتہ اسے وصول کرتا ہے۔ (۳) جب فرشتہ اسے نبی پر نازل کرتا ہے، القا کرتا ہے اور ڈالتا ہے۔[1] تو ان تین صورتوں یا موقعوں میں سے صرف پہلی دو صورتوں یا موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی آواز ثابت ہے، مگر اس کی کوئی کیفیت، صفت اور مثال ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس کو کسی بھی آواز سے تشبیہ دینا، یا اس کی مثال دینا اللہ کی شریعت میں حرام ہے۔ رہی تیسری اور آخری صورت یا موقع تو اس موقع پر اس کو وصول کرنے والا فرشتہ صرف وہ کلام اور وہ حکم اپنی آواز اور اپنے تلفظ اور نطق کی صورت میں اس نبی یا رسول کو پہنچاتا تھا جس کو پہنچانے کا اس کو حکم دیا جاتا تھا۔ رہی اللہ کی آواز تو فرشتہ نہ تو اس کو ’’مرسل الیہ‘‘ رسول تک پہنچاتا تھا اور نہ پہنچا سکتا تھا، یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کو ایک معمولی اور غیر تجربہ کار انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ لطیفہ: علامہ کشمیری نے اس بحث کے آخر میں ایک ایسی بات تحریر فرمائی ہے جو ان کی علمی شہرت پر ایک بدنما داغ ہے، میں پہلے ان کی عربی عبارت نقل کر دیتا ہوں ، پھر اس کا ترجمہ کر دوں گا، تاکہ میرے اوپر غلط بیانی کا الزام نہ لگایا جائے۔ ’’ثم إن ہذا الصوت ہل یبلغ الی النبی بعینہ کما یبلغ الی اہل السموات، او یتلقاہ الملک و یحفظہ کما تحفظ الاصوات فی الالواح المعروفۃ الیوم ما یسمی بالفونو غراف‘‘ فامر یدور النظر فیہ و لم یتعرض الیہ الحدیث‘‘ ’’پھر یہ آواز کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو بہو اسی طرح پہنچ جاتی تھی جس طرح آسمان والوں کو پہنچ جاتی تھی یا فرشتہ اس کو وصول کر کے اس کو اس طرح محفوظ کر لیتا تھا جس طرح آوازیں آج کے زمانے میں معروف ’’فونو گراف‘‘ کی پلیٹوں میں محفوظ کر لی جاتی ہیں ، یہ مسئلہ زیر غور ہے اور حدیث نے اس سے تعرض نہیں کیا ہے۔‘‘ [2] میرے خیال میں یہ بات اسی شخص کے قلم سے نکل سکتی ہے جو وحی و رسالت کے معنوں ، اور فرشتوں اور رسولوں کے فرائض منصبی سے بالکل ناواقف ہو اور قرآن پاک جس کے مطالعہ میں آتا ہی نہیں ہو یا آتا تو رہا ہو، مگر وہ اس کے اوپر ہی اوپر سے گزر جاتا رہا ہو۔ سورۂ شوریٰ کی آیت اس امر میں بالکل قاطع ہے کہ انسان کا یہ مقام ہی نہیں کہ اللہ اس سے دوبدو بات کرے، اس نے موسیٰ علیہ السلام سے اپنی خاص حکمت سے ایک بار براہ راست بات کی تھی، لیکن بعد میں ان پر بھی شرعی احکام بذریعہ وحی نازل ہوتے رہے، اگر انبیاء و رسل براہ راست اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر اللہ کے احکام وصول کر سکتے تو پھر فرشتوں کی کیا
[1] ص ۲۰ [2] ص ۲۰