کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 405
’’اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ہر چیز سننے والا اور ہر چیز دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس دو ٹوک اور واضح فرمان الٰہی کے بعد ایک امام العصر کو یہ جرات کس طرح ہوئی کہ وہ گھنٹی سے مشابہت رکھنے والی، یا گھنٹی کی آواز کی مماثل آواز کو اللہ کی آواز بتائے، پھر یہ دعویٰ بھی کرے کہ ’’یہ آواز مخلوقات کی آواز کی طرح نہیں ہے، کیا ’’صلصلۃ الجرس‘‘ مخلوق نہیں ہے؟ ۵۔ امام العصر نے اس انتہائی نازک عقائدی مسئلہ کے بیان میں نہ تو قرآن سے کوئی دلیل دی ہے اور نہ حدیث سے۔ بلکہ شیخ اکبر ابن عربی کا ایک قول بطور دلیل نقل کیا ہے جس کے آخر میں ہے: ’’و نَزِّہْہُ وَ شبِّہْہُ‘‘ اور خود اردو میں اس کا ترجمہ بھی کر دیا ہے: ’’اور تنزیہہ کیے جا اور تشبیہ دیے جا۔‘‘ کیا ابن عربی کا قول: ’’شبہہ‘‘ اور اس کے پیرو کشمیری کا ترجمہ ’’تشبیہ دیے جا‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے؟ یاد رہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دینے سے نہیں روکا گیا ہے، بلکہ اس کی مثال بیان کرنے سے روکا گیا ہے اور تشبیہ اور تمثیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اوپر سورۂ نحل کی جو آیت مبارکہ نقل کی گئی ہے اس میں اللہ کے لیے مثالیں گھڑنے، بنانے اور دینے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے لیے مثالیں دینے کے معنیٰ ہیں کہ کہا جائے: اللہ کا ہاتھ فلاں کے ہاتھ کی طرح ہے، اس کا چہرہ فلاں کے چہرے کی طرح، اس کی آواز فلاں شخص یا فلاں چیز کی آواز کی طرح ہے وغیرہ، تو یہ غیر اللہ یا مخلوق سے اس کی تشبیہ اور تمثیل ہی تو ہے، جو سورۂ نحل کی آیت ۷۴ اور سورۂ شوری کی آیت ۱۱ کے بموجب حرام ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان کو من و عن اور تاویل و تحریف کیے بغیر ان کے حقیقی معنوی میں لینا اور ماننا، نہ اللہ کی تشبیہ ہے اور نہ تمثیل۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی جو مثال خود دی ہے اس کو جوں کا توں ، بلا کسی تاویل و تحریف کے ماننا نہ تمثیل ہے اور نہ غیر اللہ سے تشبیہ ہے اور اگر ہے بھی، تو اللہ اپنے کسی فعل میں جواب دہ نہیں ہے۔ (الانبیاء: ۲۳) معلوم ہوا کہ علامہ کشمیری کے امام و مقتدیٰ ابن عربی نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’و نزہہ و شبہہ‘‘ تو اس کا پہلا حصہ درست ہے اور ’’شبہہ‘‘ اور ’’اس کی تشبیہ دیے جا‘‘ اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے اور فرمان الٰہی کے خلاف چیلنج ہے۔ ۶۔ امام العصر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تین جگہوں پر آواز ثابت ہے: (۱) جب آواز باری تعالیٰ کے جناب سے صادر ہوتی ہے۔