کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 404
صورتیں باقی بچتی ہیں : ۱۔ دل میں کسی بات کا ڈال دینا ۲۔ فرشتے کو بھیجنا جو مرسل الیہ کو اللہ کا پیغام پہنچائے یاد رہے کہ دل میں بات ڈال دینے کی جس قسم کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے، وہ بھی بذریعہ فرشتہ وقوع پذیر ہوتی تھی، البتہ اس میں فرشتہ دو بدو رسول سے ہم کلام نہیں ہوتا تھا اس کے لیے ’’النفث فی الروع‘‘ یا ’’القاء فی الروع‘‘ کی تعبیر آئی ہے جس کے معنی ہیں : ’’دل میں ڈال دینا‘‘ حدیث کے مطابق یہ عمل بھی جبریل انجام دیتے تھے۔[1] ظاہر سی بات ہے کہ جب وحی کی یہ صورتیں بذریعہ فرشتہ وقوع پذیر ہوتی تھیں ، تو وہ اللہ کا جو پیغام بھی پہنچاتا تھا اپنی آواز میں پہنچاتا تھا، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی آواز میں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو منتقل کرنا تو دور کی بات ہے کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی آواز اپنی گرفت میں لے کر کسی تیسرے انسان کو نہیں سنوا سکتا، البتہ اس کے کلام کو اپنے الفاظ اور نطق کے ذریعہ جوں کا توں منتقل کر سکتا ہے، یہ سب بدیہی باتیں ہیں جن کو سمجھنے کے لیے نہ شیخ اکبر ہونے کی ضرورت ہے اور نہ امام العصر ہونے کی۔ ۳۔ بلاشبہ قرآن پاک اور دوسری آسمانی کتابوں کا مصدر ذات الٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتابیں ، جن میں سے ایک قرآن بھی ہے اللہ کے کلام سے عبارت ہیں اور یہ کتابیں حروف، معانی اور آواز کے ساتھ ان کے نازل کرنے والے فرشتوں کو دی گئی تھیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا، اور ان فرشتوں نے یہ کتابیں اپنی آوازوں اور اپنے تلفظ اور نطق کی صورت میں ان کے ’’مرسل الیہ‘‘ تک پہنچائی تھیں ، کلام جو حروف و معانی سے عبارت ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کا تھا، مگر نطق اور تلفظ حاملین وحی فرشتوں کا تھا اس کی مثال یہ ہے کہ جب ہم کسی شاعر کا شعر پڑھتے ہیں تو یہ اسی کا شعر اور کلام ہوتا ہے، البتہ ادا ہماری ہوتی ہے۔ رہی آواز تو نہ وہ صاحب آواز سے جدا ہونے کے بعد کسی کی گرفت میں آ سکتی ہے اور نہ وہ کسی دوسرے کے پاس اس کو منتقل کر سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو سنوا سکتا ہے۔ ۴۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو لوگوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے لیے مثالیں بنائیں : ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (النحل: ۷۴) ’’اللہ کے لیے مثالیں نہ دو اس لیے کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ دوم اس نے یہ فرما دیا ہے کہ اس کی طرح کوئی چیز نہیں ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُo﴾ (الشوری: ۱۱)
[1] ابن ماجہ: ۲۱۴۴، بیہقی ص ۲۶۴-۲۶۵ ج ۵، ابن حبان ۳۲۳۹، ۲۳۴۱