کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 403
تھے، بلکہ اس کے برعکس یوں آیا ہے: ’’اور ہم نے طور کی داہنی جانب سے اس کو آواز دی۔‘‘ (مریم: ۵۲) ’’جب وہ وہاں پہنچا تو مبارک خطہ کی وادی کے داہنے کنارے کے ایک درخت سے پکارا گیا۔‘‘ (قصص: ۳۰) کیا قرآن پاک کی ان صراحتوں کے بعد بھی آپ کے اس قول کا کوئی اعتبار رہ جاتا ہے کہ ’’منقول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام طور پر اللہ تعالیٰ کی آواز ہر سمت سے سنتے تھے۔‘‘ مانا کہ آپ قرآن پاک کی تلاوت اور اس میں تدبر و تفکر سے محروم تھے، مگر آپ کسی سے پوچھ تو سکتے تھے جو آپ کو بتا دیتا کہ قرآن پاک میں یہ نہیں آیا ہے کہ طور پر موسیٰ علیہ السلام اللہ کی آواز ہر جہت اور سمت سے سن رہے تھے، بلکہ یہ آیا ہے اور بصراحت آیا ہے کہ ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا گیا، ’’نداء‘‘ اس آواز کو کہتے ہیں جو بلند ہو اور دور سے آئے، لہٰذا انہوں نے آواز اسی جانب سے سنی ہو گی جہاں سے وہ آ رہی تھی۔ ۲۔ صحیح بخاری کی اس زیر مطالعہ حدیث میں وحی کو اللہ تعالیٰ کی آواز قرار دینے والا ابن عربی ہے آپ نہیں ہیں ، مگر آپ کو یہ قول لے کر اس پر خیالی قصر تعمیر کرنے سے پہلے ایک لمحہ ہی کے لیے یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مطابق صحابی، حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی آنے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا تھا، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی آواز آنے کی کیفیت کے بارے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ آپ کے پاس اللہ کی آواز کس طرح آتی ہے؟ کیا آپ کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ایک سادہ سے سوال کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے سے بھی قاصر تھے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ حدیث کے سیاق و سباق اور پس منظر کی رو سے ’’اللہ تعالیٰ کی آواز‘‘ کی طرف اسی شخص کا ذہن جا سکتا ہے جس کے ذہن کو ’’مخالفِ حق‘‘ صوفیانہ خیالات نے مفلوج کر دیا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک سے زیادہ مقام پر یہ اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے اپنی ہم کلامی کا شرف صرف موسیٰ علیہ السلام کو بخشا ہے: ﴿قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ﴾ (الاعراف: ۱۴۴) ’’فرمایا، اے موسی! درحقیقت میں نے تجھے لوگوں پر اپنے پیغام اور کلام سے فضیلت بخشی ہے۔‘‘ سورۂ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے اس ہم کلامی کو ’’پردے کے پیچھے سے کیے جانے والے کلام سے تعبیر کیا ہے، جس میں قرآن کے مطابق دوسرا کوئی رسول ان کے ساتھ شریک نہیں تھا، ورنہ ’’منہم من کلم اللہ و کلم اللہ موسی تکلیما، إنی اصطفیتک برسالاتی و بکلامی‘‘ وغیرہ تعبیریں بے معنیٰ ہو جائیں گی۔ حدیث معراج کے مطابق اللہ نے معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ہم کلامی کا جو شرف بخشا تھا وہ نزول وحی کے واقعات سے خارج ہے اور بالکل ایک الگ اور منفرد واقعہ ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آیت مبارکہ میں ’’اللہ کے پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کو‘‘ نکال دینے کے بعد وحی کی صرف دو