کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 402
معرفتِ حق کے لیے براہ راست کتاب و سنت سے رجوع کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ ۱۔ علامہ نے ’’صلصلۃ الجرس‘‘ کی حقیقت جاننے اور سمجھنے کے لیے قرآن و حدیث، یا کسی تفسیر کی کتاب یا حدیث کی کتاب، یا مفسرین، محدثین حتی کہ فقہاء میں سے کسی سربر آوردہ شخصیت کی طرف دیکھنے کے بجائے ایک ایسے شخص کی طرف دیکھا جو صوفیا کے علاوہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک متفقہ طور پر گمراہ تھا اور اس کی دونوں کتابیں ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ باطل اور گمراہ کن عقائد اور نظریات سے بھری پڑی ہیں اور ’’اسرار دین‘‘ اور ’’باطنیت‘‘ کا عقیدہ رکھنے والے صوفیا ہی کے نزدیک کوئی قدر و قیمت رکھتی ہیں یاد رہے کہ ’’شیعہ‘‘ سے زیادہ ’’صوفیا‘‘ دین میں باطنیت کے قائل ہیں قرآن و حدیث کی نصوص کی جو تشریحات و توضیحات تصوف کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب باطنیت کی ترجمان ہیں اسی وجہ سے حافظ سیوطی جیسے صوفی نے بھی کلام اللہ کے بارے میں صوفیا کے اقوال کو تفسیر ماننے سے انکار کیا ہے اور ابو الحسن واحدی نے ابو عبدالرحمن سلمی صوفی کی تفسیر ’’حقائق التفسیر‘‘ کو تفسیر ماننے والے پر ’’کفر‘‘ کا حکم لگایا ہے اور حافظ ابن صلاح کے مطابق صوفیا باطنی فرقے کے مسلک پر گامزن ہیں ۔ ‘‘[1] پھر علامہ نے ابن عربی کے جس قول کو عمدہ اور باریک کہہ کر اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے وہ ناقابل التفات ہے۔ ابن عربی کا دعویٰ ہے کہ: ’’باری تعالیٰ کی آواز ہر سمت اور جہت سے سنی جاتی ہے اور اس کی کوئی متعین جہت نہیں ہوتی، یہی حال گھنٹی کی آواز کا بھی ہے اور دونوں میں وجہ شبہہ ان کا ہر جہت سے آنا ہے اور یہ بھی منقول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام طور پر اللہ تعالیٰ کی آواز ہر سمت سے سنتے تھے۔‘‘ ابن عربی کے اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ گھنٹی کی آواز ہر سمت سے آتی ہے اور چونکہ باری تعالیٰ کی آواز بھی ہر سمت سے آتی ہے اس لیے باری تعالیٰ کی آواز کو گھنٹی کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے؟ عقل، نقل اور تجربہ ابن عربی کے اس قول کے باطل ہونے پر دلیل ہیں ، اس کا یہ دعویٰ معلوم ہوتے ہی اگر آپ خود اس کا ذاتی تجربہ کر لیتے تو آپ کو اس کے جھوٹ ہونے کا یقین ہو جاتا مگر برا ہو اندھی تقلید کا، جو بصارت و بصیرت پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’منقول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام طور پر اللہ تعالیٰ کی آواز ہر سمت سے سنتے تھے۔‘‘ تو عرض ہے کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے جو آپ کے مقام و مرتبے کے خلاف ہے طور پر موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کی آواز سننے کا واقعہ صرف قرآن میں بیان ہوا ہے اور قرآن میں کسی جگہ بھی یہ نہیں آیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام یہ آواز ہر سمت اور جہت سے سنتے
[1] الاتقان: ص ۴۵۷-۴۵۸ ج ۲