کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 401
کہ یہ ایسی آواز ہے جو ’’پے درپے‘‘ آئے اور آغاز امر میں سمجھ میں نہ آئے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر نے اس ’’صلصلۃ الجرس‘‘ کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات اور ان کا جواب دینے کے بعد لکھا ہے کہ کہا گیا ہے: مذکورہ ’’صلصلہ‘‘ فرشتے کی وحی آمیز آواز ہے، خطابی کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ایسی آواز ہے جو پے درپے آتی ہے آپ اسے سنتے تو ہیں مگر سنتے ہی اسے سمجھ نہیں پاتے بعد میں سمجھنے لگتے ہیں ۔‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے: ’’صلصلہ‘‘ فرشتے کے پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز ہے اور اس کے پہلے سنائی دینے میں حکمت یہ ہے کہ کان وحی سننے کے لیے تیار ہو جائیں اور ان میں کسی اور چیز کے لیے جگہ نہ رہ جائے۔ [1] حافظ ابن حجر نے ان دونوں قولوں میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی ہے اور حق یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک قابل اخذ ہے اگرچہ پہلا قول زیادہ قرین صواب ہے اور پر پھڑپھڑانے سے زیادہ مناسب ہے۔ کشمیری کے دعاوی: علامہ کشمیری نے حدیث کی شرح کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حافظ ابن حجر نے ’’صلصلہ‘‘ کے دوسرے معنیٰ کو معتبر مانا ہے، یعنی ’’فرشتے کے پروں کا پھڑپھڑانا‘‘ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ابن حجر نے کسی کو بھی کسی پر ترجیح نہیں دی ہے، بلکہ دوسرے قول کو آخر میں لا کر اس کے مرجوح ہونے کا اشارہ کر دیا ہے۔ لگتا ہے کہ علامہ کشمیری ’’فتح الباری‘‘ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد اس آواز کو باری تعالیٰ کی آواز ثابت کرنے کے لیے جو ’’بکواس‘‘ فرمائی ہے وہ ان کے مقام اور شہرت سے میل نہیں کھاتی، فرماتے ہیں : ’’کس قدر باریک ہے وہ بات جو شیخ اکبر نے فرمائی ہے کہ باری تعالیٰ کی آواز ہر سمت سے سنی جاتی ہے۔ یا سنی جا سکتی ہے اور اس کے لیے کوئی جہت یا سمت متعین نہیں ہے اور ’’صلصلہ‘‘ کی آواز بھی ایسی ہی ہے اسی طرح دونوں کے درمیان ’’وجہ شبہہ‘‘ یہ ہے کہ دونوں ہر طرف سے اور ہر جہت سے آتی ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام طور پر اللہ تعالیٰ کا کلام ہر سمت سے سنتے تھے، اسی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ ’’صلصلہ‘‘ باری تعالیٰ کی آواز ہے، شارحین حدیث کی آراء کے برعکس۔‘‘ [2] تبصرہ: افسوس ہے کہ علامہ نے اوپر جو دعوے کیے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ محض ’’بکواس‘‘ ہیں ، وہیں ان کے امام العصر اور محدث عظیم ہونے کی شہرت کے بالکل منافی ہیں ، میں ان دعوؤں پر ایک ایک کر کے تبصرہ کروں گا، تاکہ صحیح بات واضح ہو سکے اور جو لوگ امام العصر کے افکار و آراء سے متاثر ہیں اور ان کو حق سمجھتے ہیں وہ عقل کے ناخن لیں اور ان کے اندر
[1] فتح الباری، ص: ۲۶۱ ج: ۱ [2] ص ۱۹-۲۰