کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 400
’’جان لو، علماء کی ہر جماعت کچھ ایسے الفاظ استعمال کرتی رہی ہے، جن کے استعمال میں وہ ایک دوسری سے منفرد رہی ہے اور اپنے خاص اغراض و مقاصد کے تحت اس طرح کے الفاظ کے استعمال پر ان کا اتفاق رہا ہے… اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے ان کا مقصد یہ رہا ہے کہ ان الفاظ کے معنیٰ صرف ان کو معلوم رہیں جو تصوف سے تعلق رکھتے ہیں ، رہے وہ جو ان کے مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں ، تو ان تعبیرات سے ان کے پلے کچھ نہ پڑے اور ان کے مہبم اور غیر واضح مفاہیم کے علاوہ ان کے حصے میں کچھ نہ آئے۔ کیونکہ صوفیا یہ نہیں چاہتے کہ ان کے اسرار غیر صوفیا میں پھیلیں اور عام ہوں۔‘‘ [1] عقیدہ طحاویہ کے شارح قاضی علی بن علی بن ابی العز حنفی لکھتے ہیں : ’’اس سے بڑا کافر کون ہو گا جو اپنی مثال ’’سونے‘‘ سے دے اور رسول کی چاندی سے، اس طرح اپنے آپ کو رسول سے اعلیٰ اور افضل قرار دے ڈالے، جس شخص کا یہ قول ہے اس کا کفر مخفی نہیں رہا۔ اس شخص کے اس طرح کے اور بھی اقوال ہیں ، جن میں سے بعض کا کفر مضمر اور پوشیدہ اور بعض کا عیاں ہے۔ ضرورت ایک ایسے ناقد کی ہے جو اس چھپے جھوٹ کو کھول دے، کیونکہ جو فریب عیاں ہے اس کو ہر ناقد سمجھ سکتا ہے، مگر جو باطل پوشیدہ اور چھپا ہوا ہے اس کو ماہر اور صاحب بصیرت ناقد ہی جان سکتا ہے۔ دراصل ابن عربی کا کفر ان لوگوں سے بڑھا ہوا ہے جو کہتے ہیں : ﴿لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ﴾ (الانعام: ۱۲۴) ’’ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے تا آنکہ ہمیں اس چیز کے مانند چیز دے دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی تھی۔ ‘‘ لیکن ابن عربی اور اس کے ہم مشرب منافق، ملحد اور وحدۃ الوجود کے داعی ہیں ، مگر ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اسلام کا اظہار کرتے ہیں ، جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں منافقین ظاہر میں مسلمان بنے ہوئے تھے۔ یہ ابن عربی کشمیری کا امام، اور شیخ اکبر تھا اس طرح ان کا جو عقیدہ رہا ہو گا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ کشمیری کی بدعقیدگی کی ایک مثال: صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۲ وحی سے متعلق ایک صحابی حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کا جواب ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی یا وحی لانے والے فرشتے کی آواز کو گھنٹی بجنے کی آواز سے تشبیہ دی ہے اس حدیث کے بارے میں ، میں مناسب مقام پر تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں اور عرض کر چکا ہوں کہ یہ آواز جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹی کی آواز سے تشبیہ دی ہے فرشتے کی آواز تھی۔ صحیح بخاری کے رمز شناس حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ’’صلصلۃ الجرس‘‘ ایسی آواز کو کہتے ہیں جس میں ’’ٹنٹناہٹ یا جھن جھناہٹ‘‘ ہو اور یہ کہا گیا ہے
[1] رسالۃ مشیریہ، مصطحات التصوف، ص: ۵۳