کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 40
ہے اور بسا اوقات ان کو حدیث کی صحت جانچنے اور پرکھنے کا معیار قرار دیا جاتا ہے؟ ﴿قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾
۱۱۔ گیارھویں مثال: امین احسن اصلاحی قدیم آسمانی صحیفوں سے استدلال اور استشہاد کرنے کے بڑے خوگر تھے۔ وہ قرآنی مضامین کی تشریح وتاویل میں قدیم آسمانی صحیفوں سے صفحے کے صفحے نقل کر دیتے تھے اور قرآنی آیات کی اپنی تفسیر کی صحت پر انہوں نے ان کے طویل طویل اقتباسات نقل کر دیے ہیں ، جبکہ قرآن کے کسی حکم اور مضمون کی تشریح وتوضیح میں شاذو نادر ہی کسی حدیث سے استدلال کیا ہے، کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ان صحیفوں کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قرآن کے مطابق ان صحیفوں میں بڑی تحریفات ہوئی ہیں اور جن صحیفوں سے انہوں نے بکثرت استدلال کیا ہے وہ ترجموں کے ترجمے ہیں اس کے باوجود یہ صحیفے ان کے نزدیک اللہ کا کلام ہیں ، مگر حدیث محفوظ نہیں رہی۔ حدیث کے راوی ناقابل اعتبار تھے، علمائے جرح وتعدیل نے راویوں کی جرح وتعدیل گھر بیٹھے کر ڈالی ہے، حدیث کی روایت بالمعنی ہوئی ہے اور خبر ہونے کے ناطے حدیث میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہے وغیرہ ’’ألاساء ما یحکمون‘‘
میں نے اوپر خبر واحد کے قابل اعتبار ہونے کی جو مثالیں دی ہیں ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ خبر واحد اہل حق اور اہل باطل دونوں کے یہاں معتبر رہی ہے اور کسی بھی خبر کو خبر واحد ہونے کی وجہ سے رد نہیں کیا گیا ہے اور نہ کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے خبر متواتر کی شرط لگائی گئی ہے۔
امام شافعی اور منکرین حدیث:
منکرین حدیث کے سرخیل خوارج اور معتزلہ امام شافعی رحمہ اللہ کی پیدائش۔ ۱۵۰ھ سے پہلے سے موجود تھے۔ خوارج تو علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگ صفین کے موقع پر ظاہر ہو گئے تھے، مگر اپنی شدت پسندی تکفیری ذہنیت اور خشک مذہبیت کے باعث ان کو قبول عام نہ حاصل ہوسکا۔
رہے معتزلہ تو یہ حسن بصری رحمہ اللہ متوفی ۱۱۰ھ کے زمانے میں ظاہر ہوئے اور وہ اس طرح کہ ان کا امام واصل بن عطاء متوفی ۱۳۱ھ بصرہ میں حسن بصری کی مجلسوں میں شریک ہوا کرتا تھا، پھر اس کے عقائد میں فتور پیدا ہو گیا اور گناہ کبیرہ کے مرتکب کو خارج از اسلام قرار دینے لگا اور یہ نعرہ لگایا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ تو مسلمان ہے اور نہ کافر، بلکہ اسلام اور کفر کے درمیانی درجے پر ہے۔
معتزلہ نے کتاب وسنت سے ماخوذ اہل سنت وجماعت کے عقائد کے خلاف جو عقائد اپنائے وہ قرآن وحدیث میں منصوص عقائد سے متعارض ہونے لگے، قرآن سے انہوں نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ اس میں توحید اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات سے متعلق جو آیات ہیں وہ اپنے ظاہری اور حقیقی معنوں میں نہیں ، بلکہ مجازی معنوں میں ہیں ، رہیں