کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 399
اصل قرار دیا ہے اس کا یہ نظریہ حلول کے داعی حسین بن منصور حلاج کے افکار پر مبنی ہے۔ حلاج کا قول ہے: ’’نبوت کے انوار اللہ کے نور سے ظاہر ہوئے ہیں اور مخلوقات کے انوار نور محمدی سے پھوٹے ہیں اور تمام نوروں میں کوئی نور صاحب کرم ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نور سے زیادہ روشن، نمایاں اور قدیم نہیں ہے۔‘‘ [1] یہیں سے مسلمانوں میں نور محمدی کے عقیدے کو رواج ملا اور اس کے بارے میں ایک روایت گھڑ کر لوگوں میں پھیلا دی گئی۔ ابن عربی کے نزدیک انسان کامل وہ ہے جس میں ’’تجلیٔ حق‘‘ اپنی کامل صورت میں ہوتی ہے اور اس کے مصداق انبیاء اور اولیاء رہے اور ان میں کامل ترین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ابن عربی ’’محمد‘‘ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مراد نہیں لیتا، بلکہ ازلی حقیقی ذات محمدی مراد لیتا ہے۔ [2] ابن عربی کا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور میں خاتم الأولیاء ہوں اس نے اس حدیث میں ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور سابق انبیاء کی مثال بیان فرمائی ہے، مذکور ’’لبنۃ‘‘ -اینٹ- سے اپنی ولایت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوبصورت عمارت میں جس اینٹ کے خالی رہنے کی خبر دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ’’اینٹ‘‘ میں ہوں ۔ یہ اینٹ اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے دو تھی اس کا ظاہر تو چاندی کا تھا اور باطن سونے کا، اینٹ کے ظاہر سے مراد اسلام کے ظاہری احکام ہیں جو نبوت سے متعلق ہیں اور اس کے باطن سے مراد وہ اصل ہے جہاں سے فرشتہ وحی لیتا تھا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرتا تھا۔ ابن عربی کا دعویٰ ہے کہ وہ خوبصورت عمارت کی اس تکمیلی اینٹ میں اپنی تصویر ’’مرتسم‘‘ پاتا ہے۔ اس کے ظاہر پر اس کی تصویر اس وجہ سے مرتسم ہے کہ وہ اسلام کے ظاہری احکام کا پیرو ہے اور اینٹ کا باطنی رخ جو ’’سونا‘‘ ہے اس کی ذات سے عبارت ہے جہاں سے فرشتہ علم اخذ کرتا ہے اور اس کو رسول کی طرف وحی کرتا ہے، اس طرح رسول تو اینٹ کے ظاہری حصے یا چاندی کی اینٹ سے عبارت تھا اور خاتم الاولیاء اینٹ کے دونوں رخوں یا چاندی اور سونے دونوں سے بنی ہوئی اینٹوں سے عبارت ہے۔ اس طرح اس کو خاتم الانبیاء پر دو فضیلتیں حاصل ہیں ۔ (۱) اس کی مثال ’’سونے‘‘ کی ہے۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ ’’ماخذ علم‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ [3] عبارت ذرا طویل ہو گئی موضوع کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ بات پوری ہو، عبارت میں تعقید اور پیچیدگی کا سبب یہ ہے کہ صوفیا کوئی بات اور کوئی عقیدہ صاف صاف اور واضح لفظوں میں بیان نہیں کرتے، تصوف کی دنیا کے امام ابو القاسم عبدالکریم قشیری اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[1] الکشف عن حقیقۃ الصوفیۃ، ص: ۲۶۳۔ [2] نصوص الحکم: ص ۵۴-۵۵ [3] ملاحظہ ہو نصوص الحکم ص ۶۳ ج ۱، شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص ۳۵۶-۳۵۸ ج ۲