کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 398
حدیث سے کشمیری کا تعلق: سطور بالا میں قرآن سے علامہ کشمیری کا تعلق خود ان کے قول اور ان کے بیٹے کی روایت سے معلوم ہو گیا … اس سے قبل حدیث کے حوالہ سے ان کے نظریات اور علم جرح و تعدیل سے متعلق ان کے خیالات پر بھرپور علمی تبصرہ کر چکا ہوں نگاہ بینا رکھنے والے ان بحثوں سے حدیث سے ان کے تعلق کی صورت گری کر سکتے ہیں ۔ میں فیض الباری سے ان کی حدیث دانی کی ایک دو مثالیں دے کر اس بحث کو ختم کر دوں گا، اس طرح ان کے تقدس کا طلسم ٹوٹ جائے گا۔ کشمیری کا عقیدہ: علامہ انور شاہ کشمیری صوفی تھے اور صرف صوفی ہی نہ تھے، بلکہ مسلمانوں میں سب سے پہلے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی دعوت دینے والے صوفی محی الدین محمد بن علی بن محمد کے پیرو تھے جو ابن عربی کے نام سے معروف تھا، کشمیری ابن عربی کا ذکر ’’شیخ اکبر‘‘ سے کرتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ سے متعلق کسی مسئلہ کی تشریح کرنے سے قبل اپنے ’’شیخ اکبر‘‘ کا قول نقل کرتے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں اس مسئلہ کی تشریح کرتے ہیں جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ وحدہ الوجود کا ’’ملحدانہ‘‘ نظریہ محی الدین ابن عربی کے نام سے جڑا ہوا ہے، لہٰذا ابن عربی، پھر کشمیری کا عقیدہ جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا مختصر اور جامع مفہوم سامنے رہے مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن ج ۱ میں تحریر فرماتے ہیں : ’’وحدۃ الوجود کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی ہستی کے سوا کوئی ہستی وجود نہیں رکھتی وجود ایک ہی ہے باقی جو کچھ ہے تعینات کا فریب ہے۔‘‘ [1] ابن عربی نے اپنی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ میں وحدۃ الوجود کے عقیدے کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے ان کا ماحصل یہ ہے: ’’أن الوجود کلہ واحد ہو اللہ و ان ما یوجد فی الکون من مخلوقات، فوجودہا خیال او وہم او ظل بالنسبۃ لوجود اللہ‘‘۔ ’’پورا وجود ایک ہے اور وہ اللہ ہے اور کائنات میں جو مخلوقات پائی جا رہی ہیں تو ان کا وجود یا تو وہم و خیال ہے یا اللہ کے وجود کی نسبت سے ایک سایہ ہے۔‘‘ [2] ابن عربی نے اس ملحدانہ نظریہ کو پوری کتاب میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ وحدۃ الوجود کا یہ نظریہ بہت قدیم ہے یہ نظریہ یا عقیدہ یونان اور ہندوستان میں پہلے سے موجود تھا، جہاں سے اسے لے کر یہودیوں اور عیسائیوں نے اسے اپنا مذہبی عقیدہ بنایا اور ابن عربی نے اس کو صوفیا کے حلقوں میں رواج دیا۔ وحدۃ الوجود کے عقیدے کی رو سے جو خالق ہے وہی مخلوق ہے جو عابد ہے وہی معبود ہے اور جو معبود ہے وہی عابد ہے۔ ابن عربی نے اپنی دونوں کتابوں ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیہ‘‘ میں نور محمدی کو تمام عالم کی
[1] ص ۵۲۶ [2] ص ۱۰۱