کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 397
بکھیر دیا ہے، گویا وہ آسمان پر بکھرے ہوئے ستارے ہیں ، کیا ان سعادت مندوں اور خوش نصیبوں میں کوئی ایک ہی ایسا گزرا ہے، جس نے حفظ قرآن اور تلاوت قرآن سے محرومی کو ’’لطیفۂ غیبی‘‘ سمجھ کر اس پر اپنی سعادت مندی کا اظہار کیا ہو یا اس پر اس کا دل کڑھتا رہا ہو؟ یا عظمائے اسلام میں محدث کشمیری منفرد تھے؟ ایک قابل غور واقعہ: تاریخ حدیث میں ایسے واقعات تو بہت ملیں گے کہ یہود و نصاریٰ میں سے بہت سے لوگوں نے قرآن پاک حفظ کیا۔ حفظ قرآن سے ان کے مقاصد مختلف تھے، اکثریت مستشرقین کی رہی ہے جو قرآن میں عیوب تلاش کرنے کی غرض سے عربی زبان سیکھتے تھے اور قرآن پاک حفظ کرتے تھے، مگر انہی میں ایسے نام بھی ملتے ہیں جنہوں نے کسی مذہبی غرض سے نہیں ، محض عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے اور اپنے عربی اسلوب کو نکھارنے کی غرض سے قرآن حفظ کیا اور اللہ کی کتاب کا عجیب حال ہے کہ وہ اپنے بحر معانی میں غوطہ لگانے والوں کو ان کے ’’حسب طلب‘‘ عطا کرتی ہے۔ حفاظ قرآن اور ادبائے عرب میں ایک نام ’’انتھوان وحداح‘‘ کا ہے جن کا تعلق لبنان سے ہے اور یہ عیسائی ہیں ۔ یہ اصلاً فوجی ہیں اور فوج میں ’’بریگیڈئیر جنرل‘‘ کے عہدے تک پہنچنے کے بعد انہوں نے فوجی خدمات سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور عربی زبان کی نشر و اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔ انتھوان وحداح نے قرآن پاک حفظ کیا اور عربی قواعد اور بعض اصطلاحات پر گراں قدر کتابیں لکھیں ۔ عربی فن ’’صرف‘‘ پر ان کی کتاب ’’معجم تصریف الافعال العربیہ‘‘ ایک شاہکار ہے جس میں انہوں نے ’’صَرف‘‘ جیسے پیچیدہ اور خشک علم کو ادب کا حسن بخش دیا ہے۔ انتھوان وحداح کی سب سے گراں قدر کتاب ’’اعراب القرآن‘‘ ہے جس میں انہوں نے اعراب القرآن کے موضوع پر لکھی جانے والی تمام قدیم کتابوں کو پڑھ کر اور ان کو ہضم کر کے نہایت اعلیٰ عربی ادبی اسلوب میں بیان کر دیا ہے، انہوں نے اپنی یہ کتاب ازہر کے علماء کے سامنے پیش کی اور ازہر کے ماہرین زبان نے اس کو پڑھ کر اپنے جس پہلے تأثر کا اظہار کیا تھا وہ یہ تھا کہ اس میں قرآنی تراکیب کے بیان کے ساتھ ’’اعراب القرآن‘‘ کی بعض مشکلات کو جس اسلوب اور انداز میں حل کیا گیا ہے وہ اپنی صحت و معقولیت کے ساتھ حد درجہ آسان اور قابل فہم ہے ان کا یہ تاثر بھی تھا کہ پوری کتاب میں ’’وحداح‘‘ نے کہیں ایک جگہ بھی کوئی علمی خیانت نہیں کی ہے۔ الفاظ قرآن سے متبادر ہونے والے مفاہیم نہیں بدلے ہیں اور کوئی غلط حوالہ نہیں دیا ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مؤلف نے کہیں بھی قرآنی الفاظ اور قرآنی تراکیب سے عیسی اور ان کی والدۂ صدیقہ علیہم السلام کے بارے میں اپنے عقیدے کو درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود ازہر نے اس کی طباعت کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کا مصنف عیسائی ہے؟!!!