کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 396
جلد ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بے پناہ قوی الحفظ ہونے کے باوجود قرآن کریم کا حافظ نہ ہونا، اسے لطیفہ غیبی کے سوا اور کیا کہیے؟‘‘ [1] ایک سوال: اس امتِ وسط و خیر کو اللہ تعالیٰ نے جن نفوس قدسیہ، جن اصحاب فضل و تقویٰ اور جن محدثین، فقہاء اور علماء سے نوازا ہے ان کی تعداد لاکھوں سے زائد ہے، کیا ان میں سے کسی کے لیے بھی حفظ قرآن سے محرومی، اگر وہ حافظ قرآن نہ رہا ہو لطیفۂ غیبی تھی یا اس کے فضائل و مناقب میں نقص اور عیب تھی؟ میں یہ مانتا ہوں کہ محدثین اور فقہاء کے لیے حافظ قرآن ہونا نہ تو فرض اور لازم تھا اور نہ حفظ قرآن سے محرومی ان کے محدث اور فقیہ ہونے کی صفت میں قادح تھی، اگرچہ ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ کوئی محدث یا حافظ حدیث اللہ تعالیٰ کی کتاب کا حافظ نہ رہا ہو، سوائے ایسے محدث اور عالم حدیث کے جس کی تحصیلِ علمِ حدیث کے پیچھے یہ جذبہ کار فرما رہا ہو کہ وہ اس مقدس علم کی روشنی سے نورِ قرآن کی طرح اپنے دل کی تاریکیوں کو دور کرنے کے بجائے حدیث کے ذریعہ غیر معصوم کی تقلید کو حق اور لازم ثابت کرے گا اور اپنے امام کے اجتہادی اقوال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے حدیث اور اہل حدیث میں کیڑے نکالے گا، حدیث کی شرعی حیثیت کو ثانوی درجہ دینے کی کوشش کرے گا اور اپنے مسلک سے ٹکرانے والی حدیثوں کا، ان کو ’’اخبار آحاد‘‘ کہہ کر انکار کے گا، یا بذریعہ حدیث اپنے مسلک کو تمام فقہی مسلکوں سے بہتر یا زیادہ واجب الاتباع قرار دے گا۔ حفظ قرآن سے محرومی کے، حدیث دانی اور تفقہ میں قادح نہ ہونے کی وجہ سے علم و فضل کے اعتبار سے نقص اور عیب نہ ہونے کو مانا جا سکتا ہے، بایں معنیٰ کہ ایک شخص حافظ قرآن نہ ہوتے ہوئے بھی حدیث کا جید عالم ہو سکتا ہے، تفقہ فی الدین کی صفت سے موصوف بھی ہو سکتا ہے اور اجتہادی اور استنباطی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہو سکتا ہے۔ مگر جو شخص ماہ قرآن رمضان مبارک- میں بھی تلاوتِ قرآن کی رغبت اور خواہش نہ رکھتا رہا ہو اور دل پر جبر کر کے ایک ختم قرآن کرتا رہا ہو، کیا ایسے محدث اور امام العصر کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ اس کی یہ صفت ’’لطیفۂ غیبی‘‘ کا کرشمہ تھی یاد رہے کہ بہت سے ایسے عالم، فقیہ، محقق اور اہل قلم گزرے ہیں اور موجود بھی ہو سکتے ہیں کہ پورا قرآن اور اس کے مضامین اور مطالب، کثرت تلاوت اور کثرت تدبر و تفکر کی وجہ سے نہ کہ حفظ کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں مستحضر رہتے ہیں ، بار بار قرآن ختم کرنے والے حفاظ سے زیادہ۔ پھر قرآن تو خود اپنی آیات میں تدبر اور تفکر کی بار بار دعوت دیتا ہے اور اس کو اہل ایمان کی امتیازی صفت قرار دیتا ہے اور حقیقت واقعہ بھی یہ ہے کہ اس ’’امتِ ولود‘‘ کے بطن سے بے شمار مفسر قرآن پیدا ہوئے ہیں ، جنہوں نے کتاب اللہ کے علوم و معارف کی ’’اتھاہ گہرائیوں ‘‘ میں ڈوب کر اس کے جواہر و لآلی نکالے ہیں اور ان کو صفحہ قرطاس پر اس طرح
[1] نقش دوام ص ۱۳۳