کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 395
علامہ کشمیری نے اس کے بعد لکھا ہے کہ ’’بقیع‘‘ کی کتاب اپنے درجہ و مقام میں مسند احمد کے بعد ہے جس میں ۴۰ ہزار حدیثیں ہیں ، پھر کنز العمال ہے جس میں احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہے۔ موصوف کی یہ دونوں باتیں بھی صحت سے عاری ہیں ۔ مسند امام احمد کی حدیثوں کی تعداد لگ بھگ ۲۸۱۹۹ ہے۔ ۴۰ ہزار نہیں ۔ کشمیری نے یہاں محدثانہ اعتبار سے جو بھیانک غلطی کی ہے وہ یہ کہ مسانید کے ضمن میں انہوں نے کنز العمال کو بھی شامل کر لیا ہے، ایسا انہوں نے صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ کنز العمال کے مصنف علامہ علاء الدین علی متقی ہندی حنفی تھے، ورنہ کنز العمال کا شمار نہ حدیث کی امہات الکتب میں ہوتا ہے اور نہ آباء الکتب میں ۔ دراصل مسانید، سنن، مصنفات اور صحاح وغیرہ کا اطلاق ایسی کتابوں پر ہوتا ہے جن کی مندرجات ان کے ’’عالی مقام‘‘ مصنفین کی اپنی سندوں سے مروی ہیں ، جبکہ کنز العمال کی حدیثیں ، حدیث کی کتابوں سے منقول ہیں ۔ علی متقی محدث نہیں جامع گزرے ہیں ۔ حدیث کے فن کا واقف کار ’’کنز العمال‘‘ کو مسانید کے ضمن میں شمار نہیں کر سکتا۔ مقلد علماء ہی اپنا قد اونچا دکھانے کے لیے ایسی سیڑھیاں استعمال کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو اپنی پستہ قدی کا احساس ہوتا ہے۔ عذر گناہ بدتر از گناہ: امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی سیرت انظر شاہ مسعودی نے لکھی ہے، صوفیا کی سوانح عمریاں اگر حقائق پر مبنی ہوں اور ان میں خرافات کی آمیزش نہ ہو تو پھر یہ صوفیا کی سوانح عمریاں نہ ہوئیں ، بلکہ کسی ’’دنیا دار‘‘ کی سیرتِ بے کیف ہو گئیں ۔ علامہ کشمیری کے اوصاف میں جس صفت کو امتیازی شان حاصل ہے وہ ان کا حافظ ہے، چونکہ ہمارے اکابر محدثین اپنی قوت حافظ میں ’’ضرب المثل‘‘ تھے اس لیے ایک بے مثال محدث ثابت کرنے کے لیے کشمیری کو غیر معمولی حافظہ کا مالک دکھانا ضروری تھا اور سوانح نگار بیٹے نے دکھایا بھی، اور بار بار یہ دعویٰ کیا کہ موصوف کو ہزارہا ہزار احادیث یاد تھیں ، مگر ان کے حافظہ سے متعلق مبالغات کو منوانے کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ حائل تھی وہ یہ کہ کشمیری صاحب کو نہ صرف یہ کہ قرآن پاک زبانی یاد نہیں تھا، بلکہ وہ بجبر قرآن پاک کی تلاوت کر پاتے تھے، سوال یہ تھا کہ اس ’’محرومی‘‘ کو سعادت میں تبدیل کس طرح کیا جائے؟ صوفیا کے لیے ایسا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور سعادت مند بیٹے نے کر دکھایا اور باپ سے منسوب قرآن پاک کے عدم حفظ کی توجیہ درج ذیل الفاظ میں کر دی: ’’میں جب قرآن مجید کھول کر بیٹھتا ہوں تو اس کے علوم و معارف کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتا ہوں ، حد تو یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دن جب یہ محسوس کرتا ہوں کہ نزول قرآن کے اس مقدس مہینے میں ایک قرآن حکیم ختم کرنے کی سعادت سے بھی محرومی ہو رہی ہے، تو فکر و تدبر کے اپنے خاص طریقہ کو چھوڑ کر