کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 394
محدث تھے، ان کا شمار احمد رحمہ اللہ کے شاگردوں میں ہوتا ہے، انہوں نے حدیث میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں ۳۰ ہزار حدیثیں جمع کی ہیں ، یہ بقیع بخاری کے معاصر تھے اور احمد سے بہت کچھ اخذ کیا تھا، شاید انہوں نے احمد سے اس وقت حدیث کا علم حاصل کیا تھا جب وہ درس کے لیے بیٹھا کرتے تھے … ذہبی کے ہاتھ بقیع کی کتاب نہیں لگی۔‘‘ [1] بقی بن مخلد رحمہ اللہ کے بارے میں کشمیری نے جو معلومات دی ہیں ان میں سے صرف یہ بات صحیح ہو سکتی ہے کہ مسند بقی میں ۳۰ ہزار کے لگ بھگ حدیثیں رہی ہوں گی، بقیہ باتیں جھوٹ ہیں ۔ نہ انہوں نے امام احمد سے کسب فیض کیا تھا اور نہ امام ذہبی ان کی مسند سے ناواقف ہی تھے امام بقی کے بارے میں مستند معلومات درج ذیل ہیں : امام بقی بن مخلد: امام بقی بن مخلد بن یزید رحمہ اللہ متوفی ۲۷۶ نہایت جلیل القدر محدث گزرے ہیں ، ان کا مولد و مسکن اندلس تھا جس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق اور پھر اپنی محنتوں سے حدیث کا مرکز بنا دیا تھا، اور وہاں کے علماء، فقہاء اور عوام میں کتاب و سنت پر عمل کی روح پھونک دی تھی، جبکہ ان سے قبل اندلس میں ائمہ فقہ خصوصاً امام مالک رحمہ اللہ کی اندھی تقلید کا زور تھا۔ بقی بن مخلد نے علم حدیث کے حصول کے لیے مشرق و مغرب کو چھان مارا اور اپنے وقت کے ۲۸۰ سے زیادہ ائمہ حدیث سے حدیثیں سنیں اور آخر میں امام ربانی اور امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ متوفی ۲۴۱ سے سماع حدیث کے لیے اندلس سے بغداد کا پرمشقت سفر کیا اور امام ممدوح سے ملاقات کر کے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ مگر امام احمد نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انہوں نے روایت حدیث کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ یہ امام احمد کا ’’دور ابتلاء‘‘ تھا۔ اس طرح امام بقی امام احمد سے سماع حدیث کی خواہش پوری نہ کر سکے۔ امام بقی بن مخلد کی مسند اور تفسیر کے بارے میں امام ابو محمد علی بن احمد بن صغرم رحمہ اللہ متوفی ۴۵۶ نے نہایت گراں قدر تعریفی کلمات فرمائے ہیں اور ان کی تفسیر کو بے مثل قرار دیا ہے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ابن حزم کسی کی تعریف بہت ہی کم کرتے تھے۔ امام ابن حزم کے مطابق مسند بقی میں ۱۳۰۰ سے زیادہ صحابیوں سے مروی احادیث درج ہیں ۔ علامہ شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے الباعث الحثیث میں (ص ۱۷۶) لکھا ہے کہ مسند امام بقی کا اسلامی کتب خانوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن امام ذہبی نے لکھا ہے کہ اس کے دو نسخے ان کے پاس موجود ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ امام ذہبی کے زمانے میں وہ متداول تھی اور اس دور کے علمائے حدیث نے اس سے ضرور استفادہ کیا ہو گا اور اس کی حدیثوں کو اپنی کتابوں میں نقل کر لیا ہو گا۔ [2]
[1] ص ۱۷۸-۱۷۹ [2] سیر اعلام النبلا، ص: ۶۱۵-۶۲۲ ج: ۱۰، طبقات علماء الحدیث، ص: ۳۳۴-۳۳۶۔