کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 391
باب ہشتم:
حدیث اور فقہاء
فقہاء سے میری مراد فقہائے احناف ہیں اور وہ بھی برصغیر کے احناف، یہ اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت بھی کہتے ہیں ، حدیث سے اپنے تعلق خاطر کا بھی اظہار کرتے ہیں اور حدیث کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے بھی ہیں ، لیکن حدیث اور اہل حدیث دونوں سے پرخاش رکھتے ہیں ، میں اس باب میں حقائق بیان کرنے سے قبل، حدیث سے احناف کے تعلق کے بارے میں بعض اکابر احناف کی شہادت پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں ۔
و شہد شاہد من أہلہا:
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر اس کتاب میں مختلف حوالوں سے آ چکا ہے، آپ اور آپ کے آباء و اجداد کا شمار تو احناف ہی میں ہوتا تھا، مگر مرتبۂ اجتہاد پر فائز ہونے اور علم اور اہل علم کے قدر شناس ہونے کی وجہ سے آپ نے جس جماعت یا فرد کے بارے میں کوئی بات فرمائی، کوئی رائے دی اور کوئی حکم لگایا تو تعصب مسلکی سے بالکل پاک ہو کر، حنفی ہونے کے باوجود شاہ صاحب ناصر السنۃ امام شافعی رحمہ اللہ کے جس قدر مداح تھے اور جس قوت سے انہوں نے امام موصوف کو ’’مجتہد مطلق مستقل‘‘ کی صفات سے موصوف قرار دیا ہے۔[1] وہ ان کی حق پسندی اور حق گوئی پر دلیل ہے۔
شاہ ولی اللہ نے ’’الانصاف‘‘ میں پوری صراحت کے ساتھ یہ لکھ دیا ہے کہ تیسری صدی ہجری کے بعد ہی سے ’’مسلک حنفی‘‘ میں ’’مجتہدین مطلق منتسب‘‘ کے ظہور کا سلسلہ بند ہے اور اس کی جو وجہ بتائی ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
((و ذلک لانہ لا یکون الا محدثا جہبذا و اشتغالہم بعلم الحدیث قلیل قدیما و حدیثا))
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے ’’مجتہد مطلق منتسب‘‘ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناقدانہ صلاحیت کا مالک ’’محدث‘‘ ہو، جبکہ علم حدیث سے احناف کی وابستگی پہلے بھی کم رہی ہے اور بعد میں بھی۔‘‘ [2]
شاہ ولی اللہ نے حدیث سے احناف کی لاتعلقی کی جو بات فرمائی ہے وہ امر واقعہ کی ترجمان ہے جس کی تائید فقہ حنفی کی امہات الکتب سے ہوتی ہے کہ ان میں صحیح حدیثوں سے کم اور ضعیف، باطل اور موضوع حدیثوں سے زیادہ استدلال کیا گیا ہے اس لیے کہ ان کے مصنفین کو حدیث کا ’’واجبی‘‘ علم بھی نہیں تھا میرے اس دعوے کی تصدیق ’’نصب الرایہ تخریج احادیث الہدایۃ‘‘ سے ہوتی ہے جس کے مصنف حافظ زیلعی حنفی عالم حدیث تھے۔ اب اگر ’’الہدایۃ‘‘
[1] الإنصاف ص ۱۲۵۔
[2] ص ۱۲۹