کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 390
انسانوں کی اکثریت کی لغت میں ممنوعات کا وجود نہیں : آج دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ کھانے پینے کی اشیاء میں ممنوعات کا قائل نہیں ، چین، تھائی لینڈ، فلپائن، جاپان اور ویٹ نام وغیرہ میں ہر جانور کھائے جاتے ہیں اور ترقی یافتہ یورپ و امریکہ کی محبوب اور مرغوب غذا سور کا گوشت ہے، کیا اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی فطرت مسخ ہو چکی ہے اور فطرت میں ودیعت علم کا نور بجھ گیا ہے؟ استدلال کا ایک انداز یہ بھی: غامدی صاحب نے بعض جانوروں کے عمومی استعمال سے بھی ان کی حلت و حرمت پر استدلال کیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ ’’انسان اپنی فطرت سے یہ جانتا ہے کہ گھوڑے اور گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔‘‘[1] اس عبارت سے انہوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے جس میں گھوڑے کے گوشت کی حلت بیان ہوئی ہے۔ میں موصوف اور ان جیسی ذہنیت رکھنے والوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ گھوڑے سواری کے لیے پیدا کیے گئے، مگر ان کا یہ استعمال ان کی حرمت کا تقاضا تو نہیں کرتا، ورنہ اونٹ کا گوشت بدرجۂ اولیٰ حرام ہوتا، جو قرآن کے اولین مخاطب عربوں کے نزدیک سب سے اہم اور سب سے قیمتی جانور تھا، اور بنیادی طور پر سواری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ گائے کا گوشت تو مرغوب ترین اور لذیذ ترین غذا ہے، جبکہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گائے اور بیل کو اصل میں ہل چلانے اور پانی ڈھونے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب! آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ: ’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں ، یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔‘‘[2] سوال یہ ہے کہ پورا جنوب مشرق ایشیا، چین، پورا افریقہ، یورپ و امریکہ کیا فطرت رکھنے والے انسانوں سے خالی ہو گیا ہے کہ ان کے یہاں ماکولات میں کوئی استثنا ہے ہی نہیں ۔؟!! غامدی صاحب! دین کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنا اور فریب دینا چھوڑ دیجیے۔ جزاک اللہ خیراً۔
[1] ص ۴۱ [2] ایضاً