کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 389
نبی بیان شریعت کا مکلف ہوتا ہے بیان فطرت کا نہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سے زائد جن جانوروں کو کھانے سے منع فرمایا ہے، تو اپنے منصب رسالت کے تحت اور آپ شریعت کے بیان کے مکلف تھے فطرت کے بیان کے نہیں ۔ البتہ آپ کا بیان فطرت سے ہم آہنگ ہوتا تھا۔ یہ غامدی اور ان کے ہم نواؤں کی غلطی ہے ان لوگوں کی نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کا شارح مانتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جن مناصب پر فائز کیا تھا ان میں سے ایک شرح و بیان کتاب بھی ہے۔ شرح و بیان فطرت نہیں !! حدیث سے قرآن کا نسخ: میں اوپر یہ واضح کر چکا ہوں کہ حدیث سے قرآن کے نسخ کا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہے، ورنہ عقلاً اور شرعاً صحیح اور درست ہوتا، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل باذن خداوندی تھا، اور قرآن و حدیث اپنی تشریعی حیثیت میں یکساں درجہ رکھتے ہیں ۔ جاوید غامدی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے پرندوں اور پالتوں گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے، اگر ہم چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں ۔‘‘[1] تو عرض ہے کہ یہ غامدی کی بڑ ہے، بڑ کے علاوہ کچھ نہیں میں نے اوپر فطرت اور اس کے جو مترادفات بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں ’’فطرت‘‘ ایک مبہم اور غیر واضح میلان اور جذبہ کا نام ہے جو خیر و شر کے خلط ملط ہونے کی صورت میں خیر پر ابھارتی ہے اور چونکہ ’’توحید‘‘ سب سے بڑا حق ہے اور شرک مبغوض ترین باطل ہے، اس لیے جو فطرت خارجی اثرات سے پاک ہو وہ احساس و شعور کی صورت میں توحید کی تائید اور شرک کی تردید کرتی ہے قرآن کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت ہی توحید ہے اور توحید ہی فطرت ہے۔ (سورۂ روم: ۳۰) اور حدیث میں فطرت کو جانوروں کے بے عیب نوزائیدہ بچوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [2] لیکن فطرت علم نہیں ہے، ورنہ لوگوں کی ہدایت کے لیے رسولوں کی بعثت اور ان کے ساتھ میزان اور فرقان کی صفت سے موصوف کتابیں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حدیث قرآن کے کسی حکم کا نہ تو ازالہ -نسخ- کرتی ہے اور نہ اس کے مدعا میں تبدیلی لہٰذا بار بار قرآن کی محبت میں مگرمچھ کے آنسو بہانے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ شرح و بیان اور اضافہ نہ نسخ ہے اور نہ قرآن کے مدعا میں تبدیلی، ورنہ خود قرآن پر تضاد بیانی کا الزام لگ جائے گا ۔
[1] ص ۴۳ [2] بخاری: ۴۷۷۵، ۶۵۹۹، مسلم: ۲۶۵۸