کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 388
ہے، کیونکہ تنہا اس کے رب ہونے کو تو مشرک قومیں بھی مانتی ہیں ، صرف صوفیا کی جماعت ایسی ہے جو توحید ربوبیت میں بھی شرک کا ارتکاب کرتی ہے اور اپنے پیروں اور مرشدوں اور اکابر صوفیا کو امور کائنات میں صاحب تصرف مانتی ہے۔ تنہا اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا احساس ایک فطری احساس ہے، جبکہ شرک فطرت کے خلاف ہے اسی وجہ سے احادیث میں ہر نومولود کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ اس کو شرک میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک انسان اگر اپنی فطری حالت پر باقی رہے تو شرک کا ارتکاب نہیں کر سکتا، وہ شرک کی طرف گرد و پیش کے حالات، ماں باپ اور ماحول کے دباؤ سے مائل ہوتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانا اس بہترین ساخت، اس بے آمیز خلقت اور اس پاکیزہ صفت کے منافی ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن توحید کے سوا دوسرے حق و باطل میں تمیز، معروف و منکر کی پہچان اور حلال و حرام کی معرفت تنہا فطرت سے ممکن نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں تنہا فطرت ان احکام و شرائع کی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے جن پر چل کر اور جن کی پابندی کر کے ایک انسان اللہ کا محبوب اور صالح بندہ بنتا ہے۔ سورۂ روم کی جس آیت میں لوگوں کے ’’فطرت‘‘ پر پیدا کیے جانے کی خبر دی گئی ہے اس میں فطرت سے مراد یہی توحید ہے دین کے دوسرے احکام نہیں اور یہ توحید بھی اجمالی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے جو رسول اپنی کتابوں کے ساتھ بھیجے انہوں نے ان کتابوں کے ذریعہ اور ان کی اپنی قولی اور عملی تفسیر کر کے جہاں توحید کی تمام قسموں اور ان کے تمام پہلوؤں کو واضح کیا وہیں زندگی کے تمام امور سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کرنا سکھایا۔ فطرت شرعی احکام سے ہم آہنگ ہے: فطرت کے پاس حلال و حرام کی تفصیلات نہیں ہیں ، فطرت یہ نہیں بتا سکتی کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا ہے، اسی طرح فطرت ان جانوروں کی فہرست نہیں بتا سکتی جو حلال ہیں اور نہ ان جانوروں کے نام بتا سکتی ہے جو حرام ہیں ، لیکن شریعت نے جن جانوروں کو حلال قرار دیا ہے یا جن کا کھانا حرام ٹھہرایا ہے ان کو مانتی ہے اور ان سے اتفاق کرتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا میں اسلامی قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر پائی جانے والی ہر چیز انسانوں کے لیے پیدا کی ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (البقرۃ: ۲۹) ’’وہی تو ہے جس نے زمین میں پائی جانے والی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں ۔‘‘ اس سے یہ معلوم ہوا کہ کھانے پینے کی ہر چیز حلال ہے، سوائے ان کے جن کو اللہ و رسول نے نام لے کر حرام کر دیا ہے یا حرام قرار دے دیا ہے۔