کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 387
قرآن کی تحدید و تخصیص کے منکر ہیں ۔ اوپر ان کے اس خیال کی تردید کی جا چکی ہے۔ ان کا ایک نیا انکشاف فطرت سے متعلق ہے ان کا دعوی ہے کہ اسلام میں جانوروں کی حلت و حرمت کا تعلق شریعت سے نہیں ہے، بلکہ فطرت سے ہے ان کے یہ افکار ان کے امام ہی سے ماخوذ ہیں یا انہی کے ’’افادات‘‘ ہیں ، لیکن ان پر انہوں نے اپنی چھاپ لگا دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار چیزیں ہی ہیں ۔‘‘ [1] فطرت کیا ہے؟: ’’فِطرَت‘‘ اپنے معنی اور استعمال میں خِلقَت کی طرح ہے، کہتے ہیں : فَطَرَ یَفْطُرُ فَطْرًا وَ فِطْرَۃً بَاب نَصَرَ یَنْصُرُ ایجاد کرنا، وجود میں لانا، پیدا کرنا۔ خَلَقَ یَخْلُقُ خَلْقًا وَ خِلْقَۃً بَاب نَصَرَ یَنْصُرُ ایجاد کرنا، عدم سے وجود میں لانا، پیدا کرنا۔ قرآن پاک میں ’’فطرۃ‘‘ ایک بار آیا ہے۔ (سورہ روم: ۲۰) اسی سے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’فاطر‘‘ بنی ہے جو آسمان و زمین کی طرف اضافت کے ساتھ: ’’فاطر السموات و الارض‘‘ ۶ بار آئی ہے۔ قرآن پاک میں فعل ماضی کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ ’’فاطر‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، نام نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی جو صفات صرف ’’مضاف‘‘ بن کر آئی ہیں وہ اس کا نام نہیں ہیں ۔ ایک سورت کا نام بھی ’’فاطر‘‘ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر ’’خلقت‘‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، البتہ ’’خلق‘‘ کی صورت میں متعدد بار آیا ہے، یہ بھی ’’خلقت‘‘ کی طرح مصدر ہے، اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام: ’’خالق‘‘ اور ’’خلاق‘‘ قرآن پاک میں متعدد بار آیا ہے۔ فطرت کے مترادف: ۱۔ خلقۃ (پیدائشی حالت، صفت، ہیئت، ساخت) ۲۔ سجیۃ (عادت، طبیعت، مزاج) ۳۔ خُلق (عادت، طبیعت، خصلت اور وہ صفت جس سے افعال کا صدور ہوتا ہے) ۴۔ بدیہۃ (غور و فکر کے بغیر حاصل ہونے والا علم) جبلۃ (خلقت، فطرت) فطرت احکام و شرائع کی معرفت کا ذریعہ نہیں : توحید اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے، توحید سے میری مراد صرف اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا اعتراف
[1] ص۴۲