کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 386
ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیروی کرنے والے ہیں اور ’’ہٰذَا النَّبی ‘‘سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ہیں ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیرو وہ تھے جو پورے دین میں یعنی اصول و فروع میں اور عقائد و شرائع میں ان کے پیرو تھے اسی وجہ سے ان کا ذکر پہلے ہے، رہے ہمارے نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے تو یہ اصول دین یعنی ’’توحید‘‘ میں تو ابراہیم علیہ السلام کے پیرو تھے، کیونکہ تمام انبیاء اور رسول اصلاً توحید ہی کی دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے تھے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بلا شبہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔‘‘ لیکن توحید کے سوا دعوت دین کے طریقہ کار اور شریعتوں میں رسولوں کے درمیان اختلاف تھا اور ان امور میں کوئی رسول اپنے سابق رسول کی پیروی کا پابند نہیں تھا جس پر خود قرآن دلیل ہے: ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا﴾ (المآئدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:((ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الأمر فاتبعہا و موتتبع اَہواء الذین لا یعلمون )) ’’پھر ہم نے تمہیں دین کے ایک طریقے کا پابند بنا دیا سو اس کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو نہیں جانتے۔ ‘‘ (جاثیہ: ۱۸) یہ آیت بنو اسرائیل اور ان کے اختلافات کے ذکر کے بعد آئی ہے۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے شرعی احکام میں ابراہیم علیہ السلام کے پیرو نہیں تھے، حتیٰ کہ شریعت کے جن احکام میں اتفاق بھی تھا، ان میں بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام کے پیرو نہیں ، وحی الٰہی کے پیرو تھے یہاں تک کہ اگر ابراہیم علیہ السلام دوبارہ زندہ کر دیئے جائیں تو ان پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض ہوگی، کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء اور رسولوں سے افضل ہیں ، جن میں ابراہیم شامل ہیں اور آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی پیروی کرنے والے ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے افضل ہیں ۔ بیان شریعت یا بیان فطرت: اوپر بعض جانوروں کی حرمت سے متعلق جو صحیح احادیث نقل کی گئی ہیں ان میں بعض ایسے جانوروں کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے، جن کا ذکر قرآنی آیات میں نہیں آیا ہے اس طرح یہ احادیث قرآنی حکم میں اضافہ کا درجہ رکھتی ہیں ، غامدی صاحب نسخ، تحدید اور تخصیص کے مفہوم سے ناآشنا ہیں اور وہ ان کا ذکر ایک ساتھ کرتے ہیں اور حدیث سے