کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 385
نمبر ۱۴۵ کے آگے پیچھے ایسی کوئی آیت نہیں آئی ہے کہ جو اس امر پر دلالت کرتی ہو کہ ان آیتوں میں جو چار چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں ’’وہ اصلاً ملت ابراہیم میں حرام ٹھہرائی گئی تھیں ۔‘‘ بلکہ اس کے برعکس سورئہ انعام کی آیت۱۴۴ تو اس امر میں صریح ہے کہ مشرکین نے اونٹوں ، گائیوں اور بھیڑ بکریوں میں سے بعض مخصوص جانوروں کو حرام اور ان کے پیٹ کے بچوں میں زندہ بچوں کو عورتوں کے لیے حرام اور مردہ کو سب کے لیے حلال قرار دے رکھا تھا تو یہ تحلیل وتحریم اللہ کے کسی حکم پر مبنی نہیں تھی، اس آیت میں اس بات کی طرف کوئی معمولی سا اشارہ بھی نہیں ہے کہ مشرکین مذکورہ چیزوں کی حلت وحرمت کو ملت ابراہیم سے منسوب کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ آپ یہ اعلان کر دیں کہ آپ کو جو وحی کی گئی ہے اس میں تو صرف یہی چار چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ، تو یہ دراصل مشرکین کی خودساختہ حلت وحرمت کی تردید کی غرض سے تھا، ورنہ حرام ماکولات یا حرام چیزیں انہی چاروں میں محصور نہیں ہیں ، اس آیت میں دور دور سے بھی اس امر کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وضاحت ملت ابراہیم کے ضابطہ حلت وحرمت سے متعلق کرائی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کی تحریروں سے اشارۃ اور غامدی صاحب کی تحریروں سے صراحتاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ملت ابراہیمی‘‘ کے مجدد تھے اپنے اس باطل اور غیر اسلامی نظریہ میں جان ڈالنے کے لیے ان دونوں نے ملت ابراہیم کو ’’شریعت ابراہیم‘‘ قرار دے ڈالا ہے ، جب کہ پورے قرآن پاک میں ملت ابراہیم ’’ملت توحید‘‘ کے معنی میں آئی ہے جس میں شرعی احکام داخل نہیں ہیں ، میں نے قرآنی آیات کی روشنی میں ملت اور دین کی جو تشریح کی ہے اس کو دوبارہ دیکھ لیں ، حقیقت حال سامنے آجائے گی۔ میں سورۂ نحل کی آیت نمبر ۱۲۳ کا مفہوم اور مدعا بیان کرتے ہوئے یہ عرض کر چکا ہوں کہ نزول قرآن کے وقت تین گروہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اپنا رشتہ و ناطہ جوڑتے تھے اور ان کا نسب نامہ ان سے ملتا بھی تھا، یہودی، نصاریٰ اور مشرکین، جب کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام امام المؤحدین تھے اور یہ تینوں مشرک۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا کہ ان تینوں میں ابراہیم سے قرابت رکھنے و الے صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کی آمد سے پہلے ان کی پیروی کی، ا ور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان والے، ارشاد ربانی ہے: ﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: ۶۸) ’’درحقیقت لوگوں میں ابراہیم سے نسبت کے سب سے زیادہ حق دار وہ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور جو اس پر ایمان لائے اور اللہ مومنین کا متولی ہے۔‘‘ آیت میں ’’الناس‘‘ سے مراد یہود و نصاریٰ اور مشرکین ہیں ۔ ’’اتبعوا ‘‘ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے