کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 382
عارضی حرمت بیان فرمائی ہے جو دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے سے متعلق ہے، ارشاد ربانی ہے: وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ ’’تمہارے اوپر یہ حرام کر دیا گیا ہے کہ تم (نکاح میں ) دو بہنوں کو جمع کرو۔‘‘ (سورۃ نساء: ۲۳) چونکہ صلبی اور رضاعی بہنوں کا ایک ہی حکم ہے اس لیے ’’جمع بین الاختین‘‘ دونوں قسم کی بہنوں کو شامل ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت میں صرف دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے، ان کے علاوہ دوسرے رشتے کی دو عورتوں کو جمع کرنے کا کوئی حکم نہیں بیان کیا گیا ہے۔ حدیث سے قرآن پر اضافہ: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو بھی بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لا یجمع بین المرأۃ وعمتھا ولا بین المرأۃ وخالتھا)) [1] غامدی کی بڑ: جاوید احمد غامدی کی بکواس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا جو حرام قرار دیا ہے، وہ آیت وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ کے بعد محذوف ہے جس کو قرآن کا کوئی بھی طالب علم سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا، لہٰذا لا یجمع بین المرأۃ وعمتھا ولا بین المرأۃ وخالتھا قرآن کے مدعا کا بیان ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔[2] تو ان کا یہ دعوی اور بکواس اس دعوی اور بکواس سے مختلف نہیں ہے جو انہوں نے اس سے قبل کی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے عرب نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج سے واقف تھے اور یہ الفاظ سنتے ہی وہ یہ سمجھ گئے کہ ان سے کیا مطلوب ہے؟ نکاح میں پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو جمع کرنا قرآن کا بیان نہیں ہے: دراصل غامدی صاحب شرح وبیان کے مفہوم ہی سے واقف نہیں ، شرح وبیان کا تعلق مذکور سے ہوتا ہے اس تناظر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا بیان یہ ہے کہ ’’اختین‘‘ میں صلبی اور رضاعی بہنیں اور اخیافی علاتی بہنیں بھی داخل ہیں ، اس طرح اس حکم میں ایسی دو لونڈیوں سے مباشرت بھی حرام ہے جو سگی بہنیں ہوں ، یا رضاعی، اخیافی بہنیں ہوں یا علاتی لیکن غامدی کے سوا کوئی بھی انسان نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنے کی تعبیر سے پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو جمع کرنا نہیں سمجھ سکتا، اس لیے کہ ’’اخت‘‘ کے مفہوم میں پھوپھی، بھتیجی، خالہ اور بھانجی داخل نہیں ہیں ۔ حدیث قرآن کا نسخ نہیں ہے: مذکورہ حدیث قرآنی حکم کا نسخ بھی نہیں ہے جس کی تردید کے لیے موصوف نے یہ جھک ماری ہے اور اس کی تحدید
[1] بخاری: ۵۱۰۸۔۵۱۱۰۔ مسلم: ۱۴۰۸ [2] ص۴۵-۴۶